شکم

( شِکَم )
{ شِکَم }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں من و عن داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - پیٹ، بطن۔
"کشمیر کے لوگ سیاست بہت کم جانتے ہیں انہیں تو بس پیٹ بھر کر خوراک چاہیے اس لیے ہمیں بھی شکم کے راستے سے پل باندھ کر انہیں اپنی طرف مائل کرنا چاہیے۔"    ( ١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ٦٣١ )
٢ - رحمِ مادر۔
"آپ کی والدہ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی کہتا ہے کہ تیرے شکم میں تمام عالم کا سردار ہے۔"    ( ١٨٨٧ء، خیابانِ آفرینش، ٩ )
٣ - جھول، حمل، بارِ زچگی۔
"آدم کے زمانے میں ہر شکم سے ایک دختر ایک پسر پیدا ہوئے۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٧٩٣:٥ )
٤ - جوف، اندرونی خلاء، کھوکھلی جگہ۔
"باؤلی کے شکم میں اب اس قدر جنگل اور جھاڑیاں ہو گئی ہیں کہ سوائے ایک گڑھے کے باؤلی کی شکل بھی پہچاننا مشکل ہے۔"      ( ١٩٧٦ء، جنگ، کراچی، ١٥ اپریل، ٣ )
٥ - [ موسیقی ]  ساز کا خول، جس پر کھال یا کوئی پردہ چڑھایا جاتا ہے۔
"اکتارے کا شکم ایک بند گول قونبہ ہوتا ہے۔"      ( ١٩٦١ء، ہماری موسیقی، ١٠٥ )
٦ - گیند کی شکل کی بنی ہوئی ڈاٹ۔ (اصطلاحاتِ پیشہ وراں، 140:1)
  • The belly
  • stomach