اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - تسلیم، بندگی، آداب، کورنش۔
"آپ جہاں جا رہے ہیں ان کو ہمارا سلام کہیے گا۔"
( ١٩٨٧ء، گردش رنگ چمن، ٥٥٣ )
٢ - رخصت، خدا حافظ کی جگہ۔
سراب دہر کو میرا سلام اے ابرار جہان بے سرو ساماں میں جی نہیں لگتا
( ١٩٥١ء، صد رنگ، ٥٨ )
٣ - معاف رکھیے اور باز آیا کی جگہ، ناامیدی اور مایوسی کے موقع پر بھی مستعمل۔
بس سلام آپ کو ہم آج سے اے بندہ نواز خوب پہچان گئے جان گئے مان گئے
( ١٩١١ء، ظہیر، دیوان، ١٥٣:٢ )
٤ - نماز کا سلام جو نماز ختم کرنے کے لیے تشہد اور درود وغیرہ کے بعد پڑھا جاتا ہے، نماز ختم کرتے وقت پہلے دائیں پھر بائیں طرف منھ پھیرتے ہیں اور ہر بار السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے ہیں۔
"وہ ظہر کی نماز پڑھ رہی تھیں کچھ دیر تک کھڑا بڑبڑاتا رہا جب وہ سلام پھیر چکیں تو دل کھول کر بھڑاس نکالی۔"
( ١٩١٥ء، گرداب حیات، ٣٩ )
٥ - مسلمانوں کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں یا آپ کے روضۂ مبارک کی طرف رخ کر کے السلام علیک الخ پڑھنا، درود محمدیۖ۔
اس کے کرم نے کھینچ لیا جالیوں کے پاس ڈرتا تھا میں سلام پڑھا میں نے دور سے
( ١٩١٩ء، درشہوار، بے خود، ٨٧ )
٦ - خدا کی طرف سے سلامتی کا نزول۔
تحیت نبی کی رخن تی ہوا سلام ہور شرف حق کرن تی ہوا
( ١٦٥٧ء، گلشن عشق، ١٦ )
٧ - سلامتی، امن و امان۔
ہیں آنسو شفائے دل مبتلا رسول سلام و سفیر سکوں
( ١٩٦٩ء، مزمور میر مغنی، ٦ )
٨ - خدائے تعالٰی کا وصفی نام۔
تو سلام و خالق و متعال و عدل و کریم تو عزیز و باری و غفار و فتاح و علیم
( ١٩٨٤ء، الحمد، ٨٤ )
٩ - ایک قسم کی رثائیہ اور مدحیہ نظم جو غزل کی ہیئت میں ہوتی ہے اور جسمیں عموماً معرکۂ کربلا کا ذکر ہوتا ہے۔
"حسب فرمائش دو چار سلام موزوں کیے تھے وہ یاد نہیں۔"
( ١٨٨٨ء، مکاتیب امیر مینائی، ١٥٧ )
١٠ - مرحبا، آفریں، کلمۂ تحسین۔
سلام خانۂ زہرا ترے چراغوں پر بجھے ہیں شمع رسالت کی روشنی کے لیے
( ١٩٧٩ء، دریا آخر دریا ہے، ٤٠١ )
١٢ - [ تصوف ] راضی برضائے الٰہی ہونے کو کہتے ہیں۔ (ماخوذ: مصباح التعرف، 147)
١٣ - بے گزند، بے ضرر، بے ازار۔
"منجملہ مور غریبہ کے معجزے پیغمبروں کے ہیں جیسے شق ہو جانا قمر کا . سرد اور سلام ہو جانا آگ کا۔"
( ١٨٧٧ء، عجائب المخلوقات (ترجمہ)، ١٣ )
١٤ - قائل کرنے یا داد طلب کرنے کے موقع پر مستعمل، مراد ہماری بات یا دعویٰ سچ نکلا۔
بندگی کام آرہی آخر میں نہ کہتا تھا کیوں سلام مرا
( ١٨٥١ء، مومن، کلیات، ٣٥ )
١٥ - [ کشتی ] اکھاڑوں میں کشتی پٹے یا تلوار وغیرہ کے کرتب دکھانے سے قبل استاد کی عظمت اور اجازت لینے کے لیے شاگرد کا سلام۔
سلام لیتا ہے اس ٹھاٹ سے وہ قاتل خلق پٹے کا بانک جب جب سلام ہوتا ہے
( ١٨٦٧ء، رشک (نوراللغات) )
١٦ - [ ہئیت ] سال کی ایک اکائی، ہزار سال کا عرصہ۔
"وہ ہزار سلام کو سلام اور سو سلام کو اشمار . کہتے ہیں۔"
( ١٨٩١ء، بوستان خیال، ٢٩١:٨ )
١ - سلام دینا
سلام پہنچانا"جواب آیا کہ ہمارا سلام دو اور کہو فرصت نہیں ہے"
( ١٨٥٨ء، خطوط غالب، ٣٩٤۔ )
رخصت کرنا، دور کرنا۔ ہے روز عید رنجش خاطر کو دو سلام آءو گلے لگو مرے کیسی نہیں نہیں
( ١٨٦٨ء، آزردہ (نوراللغات) )
ملاقات کے لیے بلانا، صاحب لوگوں کا کسی کو اندر بلانے کی اجازت دینا۔"آدمی کے ہاتھ کہلا بھیجا کہ صاحب کو ہمارا سلام دو"
( ١٩٣٦ء، ستونتی، ١٠۔ )
٢ - سلام قبول ہونا۔
سلام منظور ہونا، حاضری کی اجازت ہونا۔ مزاج پوچھا جو کرتے تھے صبح و شام ہمارا قبول ہوتا نہیں اب وہاں سلام ہمارا
( ١٨٧٣ء، کلیات قدر، ١٢٤۔ )
٣ - سلام کرنا
بندگی عرض کرنا، آداب کرنا، کورنش بجالانا۔ پوچھتے ہیں وہ جاں نثاروں کو تم بھی حسرت اٹھو سلام کرو
( ١٩٢٣ء، کلیات حسرت موہانی، ١٧٥۔ )
ترک کرنا، چھوڑنا، دستبردار ہونا۔"دقیانوسی جھگڑوں اور قدیمی بے ہودگیوں کو سلام کر اطمینان سے زندگی کا لطف اٹھا"
( ١٩٣٦ء، ستونتی، ٣۔ )
خیرباد کہنا، رخصت ہونا۔ تمام عمر میں ہم نے یہ ایک کام کیا کہ زندگی کو ترے عشق میں سلام کیا
( ١٩٤٢ء، اعجاز نوح، ٥٩۔ )
چالاکی یا ہنرمندی کا قائل ہو جانا، استادی، بڑائی۔ پردہ الٹ کے جب وہ دیدار عام کرتے ایوب صبر کرتے تو ہم سلام کرتے
( ١٨٨٨ء، جوہر انتخاب، ٣٥٣۔ )
[ تاریخ ] قائل کرنا، کسی دعوے یا سچ کو ثابت کرنا۔ پیام ان کا جو آیا کہ ہم نہیں آتے تو اٹھ کے درد جگر نے مجھے سلام کیا
( ١٩١٥ء، جان سخن، ١٩۔ )
٤ - سلام ہو (جانا | ہونا)
حاضری ہونا، بازیابی ہونا، رسائی ہونا۔ زاہد گناہگاروں کا بھی ہو گیا سلام محشر تھا یا حضور کا دربار عام تھا
( ١٨٩٥ء، دیوان راسخ دہلوی، ٢١۔ )