بندگی

( بَنْدَگی )
{ بَن + دَگی }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'بندہ' کا 'ہ' حذف کر کے 'گی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے 'بندگی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٩ء کو "طوطی نامہ" میں غواصی کے ہاں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : بَنْدَگِیاں [بَن + دَگِیاں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : بَنْدَگِیوں [بَن + دَگِیوں (واؤ مجہول)]
١ - غلامی، خدمت، نوکری۔
 ہم بھی حاضر ہیں بندگی کے لیے آپ کو ہو جو صاحبی کی ہوس      ( کلیات حسرت، ٢١٢ )
٢ - اطاعت، تابعداری، فرماں برداری۔
"قاضی ضیا نے میری بندگی اختیار کی۔"    ( ١٨٩٦ء، تاریخ ہندوستان، ٩٤:٣ )
٣ - عبادت، اطاعت، عبودیت۔
 نہ کی تم نے افسوس کچھ بندگی بہت حشر میں ہو گی شرمندگی    ( ١٨٩٣ء، قصہ ماہ و اختر پری پیکر، ٤ )
٤ - عقیدت، تعلق خاطر، وابستگی۔
 تجھی کو جپتا ہوں ایمان کی مجھے سو گند یہی وظیفہ ہے قرآن کی مجھے سو گند تجھی سے بندگی رکھتا ہوں خدا کی قسم    ( ١٨١٠ء، کلیات میر، ١٣٣٧ )
٥ - تسلیم، آداب، کورنش۔
"ان کی بیوی . نے کہا، بھائی! بندگی بھیا تم نے تو آواز کو بھی ترسا دیا۔"      ( ١٩٢٣ء، اہل محلہ اور نااہل پڑوسی، ٥ )
٦ - انجیل کی وہ مقدس دعا جو نزع کے وقت عیسائیوں کے سرہانے پڑھی جاتی ہے۔
"میرا مذہب عیسوی ہے اس وقت کوئی سرہانے میرے بندگی پڑھے۔"      ( ١٨٤٧ء، عجائبات فرنگ، ١١٤ )
٧ - روشناس، تعارف یا حاضری، بحیثیت غلام، (انکسار کے موقع پر)۔
 خدمت میں اس صنم کی کئی عمر پر ہمیں گویا کہ روز اس سے نئی بندگی ہوئی      ( ١٨١٠ء، کلیات میر، ٨٨٩ )
٨ - رخصت، خدا حافظ، سلام۔
 جو عنایت غیر کو ہو وہ عطا ہو پھر مجھے بندگی اے بندہ پرور آپ کی امداد کو    ( ١٩١١ء، دیوان ظہیر، ١١١:٢ )
٩ - معافی چاہنے یا باز آنے کی جگہ۔
 کیوں ستاتے ہو مجھے اے ناصحو بندگی، جاؤ خدا کے واسطے    ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢١٥ )
١٠ - [ تصوف ]  مقام تکلیف کو کہتے ہیں۔ (مصباح التعرف لارباب التصوف، 63)
  • slavery
  • servitude;  service;  devotion
  • adoration
  • worship
  • praise