آیت

( آیَت )
{ آ + یَت }
( عربی )

تفصیلات


ایی  آیَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم مشتق ہے۔ اردو زبان میں اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : آیَتیں [آ + یَتیں (یائے مجہول)]
جمع استثنائی   : آیات [آ + یا + ت]
جمع غیر ندائی   : آیتوں [آ + یَتوں (واؤ مجہول)]
١ - نشانی، دلیل، برہان۔
 پھر آیت اقتدار یزداں گردوں پہ ہے آفتاب گرداں      ( ١٩٢٧ء، تنظیم الحیات، ٢٣ )
٢ - کسی الہامی یا آسمانی کتاب کا ایک جملہ، قرآن شریف یا کسی اور الہامی آسمانی کتاب کا پورا ایک جملہ جس کے بعد گول نشان بنا دیا جاتا ہے۔
 کسی سورت میں بھی باقی نہیں جائے تاویل کسی آیت میں بھی ممکن نہیں ایہام یہاں      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٢٢١ )
٣ - قرآن شریف میں آیت کے خاتمہ پر بنا ہوا دائرہ جس کے ساتھ ٹھہرنے یا نہ ٹھہرنے کی علامت بھی درج ہوتی ہے، نیز انجیل و توریت کے جملے کے آخر میں وقفے کی علامت۔
 خال رخ روشن کی ہے پیہم یہ اشارت والفجر کے بعد آئی ہے قرآن میں آیت      ( ١٩٢٩ء، مرثیہ فہیم (باقر علی خان)، ١١ )