فارسی سے اصل ساخت اور مفہوم کے ساتھ من و عن اردو میں داخل ہوا اور بطور صفت نیز گا ہے بطور اسم خاص استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
"پاکستان کو آزادی کے ساتھ یہ تلخ اور شیریں تحفہ ورثے میں ملا۔"
( ١٩٨٥ء، پاکستان میں نفاذِ اردو کی داستان، ٢ )
٢ - پیارا، عزیز، چہیتا، پُرکشش۔
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٦٢ )
٣ - دلکش، عمدہ۔
"مرزا کا خطِ نستعلیق شفیعا آمیز نہایت شیریں اور دلاویز تھا۔"
( ١٨٩٧ء، یادگارِ غالب، ٥٩ )
٤ - نرم، خوشگوار، ملائم۔
"تلخ لہجے میں کہے ہوئے شیریں الفاظ اور بھی تلخ ہو جاتے ہیں۔"
( ١٩٨١ء، ملامتوں کے درمیان، ٢٢٤ )
٥ - ایک عمدہ اور نفیس کپڑے کا نام۔
"بعض عمدہ کپڑوں کے نام یہ تھے، بیرامیہ، سلاجیہ، شیریں، کتان رومی . اسی مناسبت سے یہ نام رکھے گئے ہوں۔"
( ١٩٥٨ء، ہندوستان کے عہدوسطٰی کی ایک جھلک، ٢٩٠ )