پیارا

( پِیارا )
{ پِیا + را }
( ہندی )

تفصیلات


پیارا  پِیارا

ہندی سے اردو میں اپنی اصل صورت میں داخل ہوا اور بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء کو"کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : پِیاری [پِیا + ری]
واحد ندائی   : پِیارے [پِیا + رے]
جمع   : پِیارے [پِیا + رے]
جمع ندائی   : پِیارو [پِیا + رو]
جمع غیر ندائی   : پِیاروں [پِیا + روں (و مجہول)]
١ - عزیز، قریب، یگانہ
 نہ کروں کیوں لحاظ دیور کا وہ مرے پیارے کا پیارا ہے      ( ١٨٧١ء، عبیر ہندی، ٦٥ )
٢ - معشوق، دلبر۔
 بسا آنکھوں میں وہ پیارا کچھ ایسا ہے کہ کیا کہیئے تصور بندھ رہا اس کا کچھ ایسا ہے کہ کیا کہیئے      ( ١٨٤٩ء، کلیاتِ ظفر، ١١٧:٢ )
٣ - [ مجازا ]  بیٹا، فرزند۔
 کیا بات تری خوب دیا ساتھ ہمارا آ پہنچا ہے منزل پر یہ اللہ کا پیارا      ( ١٨٧٤ء، انیس (مہذب اللغات) )
٤ - چہیتا، لاڈلا، محبوب۔
 مدت میں یہ ہم چشم ہمارا نظر آیا دل ڈھونڈتا تھا جس کو وہ پیارا نظر آیا      ( ١٩٢٨ء، مرقع لیلٰی مجنوں، ٣٢ )
٥ - قابلِ قدر یا قریبی رشتے کا۔ (نوراللغات)
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : پِیاری [پِیا + ری]
واحد ندائی   : پِیارے [پِیا + رے]
جمع   : پِیارے [پِیا + رے]
جمع ندائی   : پِیارو [پِیا + رو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : پِیاروں [پِیا + روں (و مجہول)]
١ - اچھا، عمدہ
"اگر اس کی خواہش ہوکہ بچہ پیارا پیارا پیدا ہو تو قبل ولادت کے اس کو پیارا بناؤ۔"      ( ١٩٠٩ء، فلسفۂ ازواج، ٨٤ )
٢ - وہ جس سے محبت کی جائے۔
 جو دو عالم کے پیارے ہیں وہ اللہ اور محمد ہیں تو ان پیاروں کا ہے پیارا محی الدین جیلانی      ( ١٨٩٧ء، دیوان مائل حیدرآبادی، ٢٥١ )