صالح

( صالِح )
{ صا + لِح }
( عربی )

تفصیلات


صلح  صالِح

زبانِ عربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ عربی سے من و عن اردو میں داخل ہو اور بطور صفت نیز بطور اسم علم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٣ء کو "شرح تمہیدات ہمدانی (ترجمہ) ، ٢) میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : صالِحَہ [صا + لِہَ]
جمع   : صالِحِین [صا + لِحِین]
١ - نیک، پرہیز گار، پاک دامن، پارسا؛ نیکو کار۔
"جگر صاحب ظاہر ہے کہ شاعر تھے، بڑے صالح اور بڑے نیک سیرت لیکن شاعر تھے اور اچھے خدوخال سے متاثر ہوا کرتے تھے۔"      ( ١٩٨٩ء، جنگ، کراچی، مڈویک، میگزین، ١٣ )
٢ - برائی سے پاک، اچھا۔
"درد مندی ایک صالح انسانی جذبہ ہے۔"      ( ١٩٨٠ء، زمین اور فلک اور، ٨٠ )
٣ - [ مجازا ]  جو سچے دل سے ہو، پُر خلوص، مخلصانہ۔
"حلف جانے دو، تم اقرار صالح اس بنئے سے لو۔"      ( ١٨٨٤ء، پولیس ڈراما، ٥١ )
٤ - صلاح دینے والا، مشورہ دینے والا۔ (شاذ)
"ایسے علاج کی کامیابی کے باب میں شک ہے چنانچہ مولف کتاب اس علاج کا صالح نہیں ہے۔"      ( ١٨٦٠ء، نسخۂ عمل طب، ٣١١ )
اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - قوم ثمود کے ایک پیغمبر کا نام جن کی دعا سے ایک اونٹنی (ناقہ) پہاڑ سے پیدا ہوئی تھی اللہ کی نشانی کے طور پر اور پھر اس ناقے کو ان کی امت نے مار ڈالا تھا جس کی سزا میں وہ امت عذاب الٰہی کی سزاوار ٹھہری تھی۔
 کہا کہ ناقۂ صالح کا کچھ عوض نہ ملا ندا یہ آئی کہ کیا دوست گلِے کا گلہ      ( ١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ١٤:٥ )
  • a man of probity and honour;  a sedate
  • steady person