قابل

( قابِل )
{ قا + بِل }
( عربی )

تفصیلات


قبل  قابِل

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ اردو میں عربی سے بلحاظ معنی و ساخت مِن و عن داخل ہوا اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
جمع   : قابِلِین [قا + بِلِین]
١ - سزاوار، اہل، لائق، مستحق۔
"طرز کو طرز ہی سمجھنا چاہیے نہ کہ ایک متبرک اور ہر لحاظ سے قابلِ صد تقلید شے۔"      ( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائلِ پاکستان، ١٢٥ )
٢ - استعداد رکھنے والا، اہلیت رکھنے والا۔
"یہ جس طرح انتظامِ ملکی میں مشاق تھے اسی طرح . ایک قابل جرنیل تھے۔"      ( ١٩٤٧ء، مضامین فرحت، ١٩٧:٤ )
٣ - لکھا پڑھا، عالم، فاضل۔
 پھر آپ ہی آپ بولا کہ اک اور افادہ سُن گر قابل اپنے ہونے کی دل میں رکھے ہے دُھن      ( ١٨١٠ء، کلیاتِ میر، ١٠٣٠ )
٤ - [ قدیم ]  پسند کرنے والا؛ مراد عاشق۔
 محمدۖ ہے موصول واصل ہے اللہ محمدۖ ہے مقبول، قابل ہے اللہ      ( ١٨٠٩ء، دیوانِ شاہ کمال، ٤٢٧ )