پاپی

( پاپی )
{ پا + پی }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے اردو میں داخل ہوا اور عربی رسم الخط میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٠٣ء کو "نو سرہار" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت نسبتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : پاپَن [پا + پَن]
جمع ندائی   : پاپِیو [پا + پِیو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : پاپِیوں [پا + پِیوں (و مجہول)]
١ - گنہگار، مجرم، فاسق، بدکردار؛ برا، بد۔
 مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایمان کی حرارت والوں نے من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا      ( ١٩٢٤ء، بانگ درا، ٣٣٦ )
٢ - ظالم، بے رحم، کٹھور؛ منحوس۔
"انچارج برہمن بڑا پاپی، بڑا کرودھی، بڑا فطرتی اور بڑا کھاو تھا۔"      ( ١٩٢٥ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ٢٠، ٤:٤ )
٣ - ظالم جس کے ظلم میں تکلیف کے ساتھ لذت بھی شامل ہو (عموماً پیار کے موقع پر)۔
٤ - [ مجازا ]  بخیل، کنجوس، خسیس۔
 لو بھی پاپی پیٹ کے بندے میری نوائیں کیا سمجھیں ناظر ہے اس راگ کا رسیا اس کو گیت سناتا ہوں      ( ١٩٣٧ء، نغمۂ فردوس، ١٩٤:٢ )
١ - پاپی کی ناءو منجدھار میں ڈوبتی ہے
بدی کا ثمرہ بہت جلد وصول ہوتا ہے، جھوٹ کی سزا ایک ہی دفعہ مل جاتی ہے۔ گناہگار کی سزا گناہگار کے عروج کے وقت ملتی ہے۔ (نجم الامثال، ١٩؛ جامع اللغات، ٣:٢)
٢ - پاپی پاپ کا، نہ بھائی نہ باپ کا
جس کو بدکاری کی لَت پڑ جاتی ہے، وہ رشتہ کا بھی لحاظ نہیں کرتا، بدذات آدمی کو شرارت سے غرض ہے باپ بھائی کوئی بھی ہو۔