جملہ

( جُمْلَہ )
{ جُم + لَہ }
( عربی )

تفصیلات


جمل  جُمْلَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٨٢ء میں "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : جُمْلے [جُم + لے]
جمع   : جُمْلے [جُم + لے]
جمع غیر ندائی   : جُمْلوں [جُم + لوں (واؤ مجہول)]
١ - فقرہ، کلام، حکموں کا مجموعہ۔
 امید و بیم کے ہے بیچ میں ہر اک جملہ غرض کہ کھیل نہیں اپنا مدعا کہنا    ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، بادۂ عرفاں، ٧١ )
٢ - [ قواعد ] وہ ہر ایک جملہ جو نحو میں مختلف صفحات کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے، جیسے: اسمیہ، استدراکیہ، فعلیہ، شرطیہ، انشائیہ، خبریہ، قسمیہ، ندائیہ، مستانفہ وغیرہ۔ (نوراللغات؛ ماخوذ: جامع القواعد، ڈاکٹر غلام مصطفٰی)
"ایک جملہ ہے ناتمام جس میں مبتدا کی خبر نہیں، شرط کی جزا نہیں۔"    ( ١٩٠٧ء، اجتہاد، ٥٤ )
٣ - [ ریاضی ]  علامات کا مجموعہ جو کسی مقدار کو ظاہر کرے۔
"چونکہ بائیں جانب کا جملہ ما، لا کا ایک تفاعل خیال کیا جا سکتا ہے اس لیے حا، لا ی . مساوات ہو جاتی ہے۔"      ( ١٩٤٤ء، تفرقی مساواتیں، ٢٨ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - تمام، کل، پورا، میزان کل۔
"تسخیر مصر کے وقت جملہ فیصلہ کن جنگیں یہیں لڑی گئی تھیں۔"      ( ١٩٦٨ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٨٢٩:٣ )