اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - بات، لفظ، قول، کلام، انسان کے منھ سے نکلی ہوئی آواز۔
"بہتیرا چاہتی ہوں کہ دو گھڑی تمہارے پاس بیٹھ کر ہنسوں بولوں یا دو بول یاد کروں۔"
( ١٩١٠ء، راحت، زمانی، ١٥ )
٢ - فقرہ، جملہ، مقولہ۔ (پلیٹس)
"اس وقت اس کے منھ سے جو بول نکلے ہیں وہ اس قابل ہیں کہ ہم سنیں۔"
( ١٩٥٣ء، انشائے ماجد، ٦٠:٢ )
٣ - مصرع، نظم، شعر۔
ہر بول ترا دل سے ٹکڑا کے گزرتا ہے کچھ رنگ بیان حالی ہے سب سے جدا تیرا
( ١٨٩٢ء، دیوان حالی، ٥١ )
٤ - گیت کا ٹکڑا جو گیت کے مقابل ہو۔
خوب بجائیو، یہ کہہ کر خود ایک لمبی سی آکی، پھرآ، بول ندارد۔"
( ١٩٢٣ء، اہل محلہ، اور ناہل پڑوسی، ٣٤ )
٥ - لے، سر، نغمہ، نوا۔
"ڈھولک اور طبلہ بھی پکھارج پر غالب آگئے، اسی طرح ستار کے بولوں کو شرما دیا۔"
( ١٩٦٠ء، حیات امیر خسرو، ٢٠٠ )
٦ - حکم، مشور، رامے، ہدایت۔
شمامہ کے بول پر میں آیا بے راہ ہے اس رنج کا اس کی گردن گناہ
( ١٦٤٩ء، خاور نامہ، ٧٨٠ )
٧ - ناطقہ، گویائی، زبان، بولنے کی قوت۔
"کہہ کیسے نہیں سکتا? کیا کوئی زبان پکڑے بیٹھا ہے یا بول بند ہو گیا ہے۔"
( ١٩١٦ء، اتالیق بی بی، ٢١ )
٨ - [ قدیم ] اعتراض
دل نے کیا ہے کام یو اس عقل پر کیا بول ہے دل کی ادھرتی عقل بھی حیران ڈاواں ڈول ہے
( ١٦٣٥ء، سب رس، ١٧٨ )
٩ - طعنہ، طنز، بوبی، ٹھولی۔
"میاں کی خفگی، دیورانی کے بول، ساس نندوں کا عتاب، ایک بخار تھا کہ چڑھا چلا آتا تھا۔"
( ١٩١٤ء، حور اور انسان، ٣١ )
١٠ - شہرت، نام، عزت، ترقی وغیرہ (عموماً، بالا، کے ساتھ 'بول بالا، وغیرہ)۔
١١ - پیغام، پیام، اطلاع، خبر۔
جوتوں بول بھیجا سو سب ساچ ہے ہمیں نئیں سنے چوک ہماراچ ہے
( ١٦٠٩ء، قطب مشتری، ٥ )
١٣ - مثل، کہاوت، مقولہ۔
"او نے آنے کو آگوچ اس بول کے برابر اور کیا کے تو 'سوراتی کو کینچ جگہ نہیں' ٹھیک ٹھاک کر لیتے تھے۔"
( ١٧٦٧ء، انوار سہیل (دکنی اردو کی لغت)، ٨٨ )