بول

( بول )
{ بول (واؤ مجہول) }
( ہندی )

تفصیلات


ہندی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ے۔ ١٥٩١ء کو "کلمۃ الحقائق" میں جانم کے ہاں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : بولوں [بو (واؤ مجہول) + لوں (واؤ مجہول)]
١ - بات، لفظ، قول، کلام، انسان کے منھ سے نکلی ہوئی آواز۔
"بہتیرا چاہتی ہوں کہ دو گھڑی تمہارے پاس بیٹھ کر ہنسوں بولوں یا دو بول یاد کروں۔"      ( ١٩١٠ء، راحت، زمانی، ١٥ )
٢ - فقرہ، جملہ، مقولہ۔ (پلیٹس)
"اس وقت اس کے منھ سے جو بول نکلے ہیں وہ اس قابل ہیں کہ ہم سنیں۔"      ( ١٩٥٣ء، انشائے ماجد، ٦٠:٢ )
٣ - مصرع، نظم، شعر۔
 ہر بول ترا دل سے ٹکڑا کے گزرتا ہے کچھ رنگ بیان حالی ہے سب سے جدا تیرا    ( ١٨٩٢ء، دیوان حالی، ٥١ )
٤ - گیت کا ٹکڑا جو گیت کے مقابل ہو۔
خوب بجائیو، یہ کہہ کر خود ایک لمبی سی آکی، پھرآ، بول ندارد۔"    ( ١٩٢٣ء، اہل محلہ، اور ناہل پڑوسی، ٣٤ )
٥ - لے، سر، نغمہ، نوا۔
"ڈھولک اور طبلہ بھی پکھارج پر غالب آگئے، اسی طرح ستار کے بولوں کو شرما دیا۔"      ( ١٩٦٠ء، حیات امیر خسرو، ٢٠٠ )
٦ - حکم، مشور، رامے، ہدایت۔
 شمامہ کے بول پر میں آیا بے راہ ہے اس رنج کا اس کی گردن گناہ      ( ١٦٤٩ء، خاور نامہ، ٧٨٠ )
٧ - ناطقہ، گویائی، زبان، بولنے کی قوت۔
"کہہ کیسے نہیں سکتا? کیا کوئی زبان پکڑے بیٹھا ہے یا بول بند ہو گیا ہے۔"      ( ١٩١٦ء، اتالیق بی بی، ٢١ )
٨ - [ قدیم ]  اعتراض
 دل نے کیا ہے کام یو اس عقل پر کیا بول ہے دل کی ادھرتی عقل بھی حیران ڈاواں ڈول ہے      ( ١٦٣٥ء، سب رس، ١٧٨ )
٩ - طعنہ، طنز، بوبی، ٹھولی۔
"میاں کی خفگی، دیورانی کے بول، ساس نندوں کا عتاب، ایک بخار تھا کہ چڑھا چلا آتا تھا۔"      ( ١٩١٤ء، حور اور انسان، ٣١ )
١٠ - شہرت، نام، عزت، ترقی وغیرہ (عموماً، بالا، کے ساتھ 'بول بالا، وغیرہ)۔
١١ - پیغام، پیام، اطلاع، خبر۔
 جوتوں بول بھیجا سو سب ساچ ہے ہمیں نئیں سنے چوک ہماراچ ہے      ( ١٦٠٩ء، قطب مشتری، ٥ )
١٢ - صیغۂ نکاح۔
١٣ - مثل، کہاوت، مقولہ۔
"او نے آنے کو آگوچ اس بول کے برابر اور کیا کے تو 'سوراتی کو کینچ جگہ نہیں' ٹھیک ٹھاک کر لیتے تھے۔"      ( ١٧٦٧ء، انوار سہیل (دکنی اردو کی لغت)، ٨٨ )
  • speech
  • speaking
  • word
  • talk
  • conversation
  • utterance
  • cry
  • voice