اجلا

( اُجْلا )
{ اُج + لا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے دو الفاظ 'اُد' اور 'جول' کے مرکب سے ماخوذ ہے اردو میں سب سے پہلے ١٥٣٧ء کو "قصیدہ در لغات ہندی، حکیم یوسفی (مقالات شیرانی)" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : اُجْلی [اُج + لی]
واحد غیر ندائی   : اُجْلے [اُج + لے]
جمع   : اُجْلے [اُج + لے]
جمع غیر ندائی   : اُجْلوں [اُج + لوں (و مجہول)]
١ - دھوبی۔(نوراللغات، 275:1)
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : اُجْلی [اُج + لی]
واحد غیر ندائی   : اُجْلے [اُج + لے]
جمع   : اُجْلے [اُج + لے]
جمع غیر ندائی   : اُجْلوں [اُج + لوں (و مجہول)]
١ - سفید، گورا، چٹا۔
"گلے میں ایک لمبا اور نہایت اجلا کرتا تھا۔"    ( ١٩١٤ء، اسرار دربار حرام پور، ٢٠:١ )
٢ - جس کا رنگ میلا نہ ہو، ستھرا صاف (میلا کی ضد)
"کپڑے تو سب کے دھوئے اور اجلے تھے۔"    ( ١٨٩٨ء، سرسید، مضامین، ٥٨٧:٢ )
٣ - مہذب، شایستہ، عمدہ، نفیس۔
"باوجود ایسے اجلے انتظام کے جس قدر کم روپیہ مراد آباد میں خرچ ہوا ایسا کسی ضلع میں نہیں ہوا۔"
٤ - کدورت سے خالی، پاکیزہ، بے داغ۔
"اپنے دوست . کے کیریکٹر کو اجلا ثابت کرنے کے تردد میں سفیر صادق کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ . واقعات الٹ پلٹ کر بتا دے۔"      ( ١٨٩٩ء، بست سالہ عہد حکومت، ٨ )
٥ - امیرانہ، شریفانہ، پرتکلف، با سلیقہ۔
"ان کا کل سامان اجلا اور خرچ بھی بھلا چنگا تھا۔"      ( ١٩٠٥ء، حورعین، ٢ + ٩٦ )
٦ - بنا ٹھنا، صاف ستھرے لباس والا (دریائے لطافت)، سفید پوش۔
 کیا جواں مردوں کو اجلا یہ دنی رکھے گا اوڑھ لے آپ تو چادر فلک پیر سفید      ( ١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ٧٠:١ )