گول

( گول )
{ گول (و مجہول) }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے۔ اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت اور گا ہے بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٤٦ء کو "قصہ مہر افروز و دلبر" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - کوئی چیز جو مدور ہو، مدور کروی نیز دائرہ دار، چکر دار۔
"خلیات سائز کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں اس کے علاوہ شکل کے اعتبار سے مختلف قسم کے ہوتے ہیں، مثلا Oval، گول۔"      ( ١٩٨١ء، آسان نباتیات، ١٩٠ )
٢ - مبہم، مشکوک، پیچیدہ۔
"ماہر معالجوں ہی کو تشخیص نہ کر ملا کہ تخم عمل روئیدگی سے عاری ہے یا زمین شور ہے اور بات گول ہی گول رہی۔"      ( ١٩٨٦ء، انصاف، ١٨٣ )
٣ - خاموش، بے حس و حرکت۔
"بے ساختہ فرمایا "جی ہاں" مگر میرے ساتھ گول ہی بیٹھے رہیے۔"      ( ١٩٤٠ء، مضامین رموزی، ٨٤ )
٤ - معدوم، غائب۔
"لفظ گول اردو میں غائب کے معنی بھی دیتا ہے جیسے شام کا کھانا گول کر دو۔"      ( ١٩٨٨ء، اردو، کراچی، جولائی تا ستمبر، ١٠٧:٣ )
٥ - بے کار، فضول، (مجازاً) موٹی عقل۔
 نا حق خم فلک سے امید شراب عیش سمجھاؤں کیا سمجھ بھی تو رندوں کی گول ہے    ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، میخانۂ الہام، ٣٧٨ )
٦ - نادان، بے وقوف، مجہول الحال۔
"نہ عشق بازی کا ڈھب نہ محبت سازی کا سلیقہ بالکل کورے، سپاٹ، گول دونپو۔"    ( ١٩١٥ء، سجاد حسین، کایا پلٹ، ٥٠ )
٧ - موٹا، بھدا، بے ڈھنگا، بے ڈول۔
 تمہارا گول عشق ہے نہیں فٹ بال سے کچھ کم ذرا چلنے میں جڑ کر اس کو ٹھوکر دیکھتے جاؤ    ( ١٩٣٧ء، ظریف لکھنوی، کلیات، ٦٩:١ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - مٹی کا بڑا مٹکا، گھڑا، مٹکا۔
 یہ صراحی ہے یہ ججھر ہے یہ مٹکا یہ گول یہ ہے ضحک یہ سبو بہر شراب و روغن      ( ١٩١٠ء، کلام مہر (سورج نرائن)، ١٨٣ )
٢ - پتنگ کی ایک قسم۔
"طرح طرح کی پتنگ بنے، گول، دوپنا، ماہی جال، مانگدار، بھیڑیا، طوقیہ، خربوزیہ، لنگوٹیہ، چپ، تکل، کنکیا، سفید، للپتا، کلپتا۔"      ( ١٨٨٠ء، فسانۂ آزاد، ١٤١:٤ )
  • Anything round;  a circle;  a ball;  a sphere