ڈال

( ڈال )
{ ڈال }
( پراکرت )

تفصیلات


دالی  ڈال

پراکرت زبان کے لفظ 'دالی' سے ماخوذ ہے یہ قیاس بھی کیا جاتا ہے کہ سنسکرت کے لفظ 'داری' سے اخذ کیا گیا مگر اغلب یہی ہے کہ پراکرت سے ماخوذ ہے اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦٢١ء میں "خالقِ باری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مؤنث - واحد )
١ - بے جوڑ، سالم، بے لاوٹ۔
"رامسیس ثانی کا بڑا مجسمہ پتھر کی ایک ڈال سے بنایا گیا تھا۔"      ( ١٩٤٤ء، آدمی اور مشین، ٦١ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : ڈالیں [ڈا + لیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : ڈالوں [ڈا + لوں (و مجہول)]
١ - شاخ، ٹہنی، ڈنڈی۔
"بانہیں مضبوط ڈال کی طرح کیسے جھومتی چلی آرہی ہیں۔"      ( ١٩٦١ء، برف کے پھول، ٨٩ )
٢ - تلوار کا پھل، بے قبضے کی تلوار۔
 کیا نزاکت سے لچک جاتا ہے واہ جس طرح سے سیف کی دُمتی ہے ڈال      ( ١٨٥٨ء، کلیات تراب، ١٢٣ )
٣ - ٹوکری یا ڈول جس سے آب پاشی کے لیے پانی نکالتے ہیں، آبپاشی کا ٹوکرا یا ڈول۔
"پانی تالاب و ندی کا اس پٹیاری بانس سے باہر پھینکتے ہیں اس کا نام بینڈی "لہینڈی" ڈال ہے۔"      ( ١٨٤٦ء، کھیت کرم، ١١ )
٤ - [ کاشتکاری ]  وہ قطعہ اراضی یا کھیت جو نہر کے پانی کی سطح سے اونچا ہو اور جہاں آبپاشی کے لیے پانی چڑھاؤ پر لے جانا پڑے۔ (اصطلاحاتِ پیشہ وراں، 158:6)
٥ - ڈلیا، چنگیری یا پھل پھول رکھنے کی ٹوکری جس میں پھل سجا کر کسی کے یہاں بھیجے جائیں، کپڑا، گہنا زیور جو ایک ڈلیا میں رکھ کر دولہا کی طرف سے دلہن کے گھر بھیجے جاتے ہیں۔
"اب بھانوروں کی تیاری ہونے لگی جو اپنے کپڑے اور زیورات کا ڈال آیا۔"      ( ١٩٣٦ء، پریم بتیسی، پریم چند )
٦ - سکے کی وضع کا ایک زیور جسے جوگی لوگ داہنی کلائی میں پہنتے ہیں، گہنا، وسط بھارت اور ماروڑا میں بھی پہنا جاتا ہے۔ (ماخوذ: مہذب اللغات؛ شبدساگر)
٧ - دیوار گیریوں یا جھاڑوں وغیرہ اس کھونٹی کو کہتے ہیں جس میں کنول لگائے جاتے ہیں۔
"ڈالوں کو دیوار میں لگا کے دیکھ لیا کرو، پیچ تو نہیں ڈھیلے ہیں اگر پیچ ڈھیلے ہوئے تو کنول گر جائیں گے۔"      ( ١٩٦٨ء، مہذب اللغات، ٣٤٠:٥ )