صفا

( صَفا )
{ صَفا }
( عربی )

تفصیلات


صفء  صَفا

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے من و عن اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم نیز بطور صفت اور گا ہے بطور فعل متعدی استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - صاف و شفاف، بے لوثے کدورت سے پاک، پاکیزہ، مجلاّ، منور، چمکیلا۔
 نظر آئے جلوہ خدائی کا مضطر اگر اپنے دل کو صفا کر سکوں میں      ( ١٩١١ء، نذرِ خدا، ٩٦ )
٢ - خالی، غائب، غلط سلط۔
"خط بالکل چوتھے درجے کے لڑکوں کا سا، گرامر بالکل صفا، الفاظ آتے ہی نہیں۔"      ( ١٩٥٥ء، آبلہ دل کا، ١٨٣ )
فعل متعدی
١ - صاف، بے روک ٹوک، بے لاگ۔
"وہ بھی ایک ہٹی اور ضدی تھی اس نے صفا انکار کر دیا۔"      ( ١٩٨٥ء، طوبٰی، ٩٤ )
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - ستھرائی، پاکیزگی، آب و تاب، چمک دمک۔
 نازنینوں کی ہے کمروں کی ادا ہنسوں میں اُن کے ہے پھول سے مُکھڑوں کی فضا کنولوں میں      ( ١٩١٣ء، اکسیرِ سخن، ٤٨ )
٢ - ہمواری، چکناہٹ (جس کے باعث چیز پھسل جائے)۔
 جامِ الماس ہیں وہ حسن ہے اس سے آگاہ یہ صفا ہے کہ ٹھہرتا ہی نہیں پائے نگاہ      ( ١٨٦٨ء، واسوخت معجز (شعلۂ جوالہ)، ٨٠١:٢ )
٣ - خلوص، بے لوثی، پاک وطنی۔
 اٹھتے رہیں گے غبار بڑھتے رہیں گے سوار مرد کو ہے گردِ راہ فتنۂِ صدق و صفا      ( ١٩٧٠ء، برشِ قلم، ٤٢ )
٤ - وضاحت، صراحت، سلاست، روانی، عدمِ ابہام۔
 مطلب میں صفا ہو یہ تکلف ہے زباں کا دقت ہوئی معنی میں تو کیا لطف بیاں کا      ( ١٨٣٢ء، دیوانِ رند، ١٤:١ )
اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - مکہ مکرمہ کی ایک پہاڑی کا نام جو مروہ پہاڑی سے تقریباً دو سو قدم کے فاصلے پر ہے۔ حاجی ان پہاڑیوں کے درمیان دوڑتے ہیں، اس عمل کو سعی کہتے ہیں۔
"صفا اور مروہ بھی مسجد کے اندر آنے کی وجہ سے مستف ہو گئے ہیں۔"      ( ١٩٦٧ء، اردو ڈائجسٹ، لاہور، اکتوبر )
٢ - ایک بڑے بت کا نام جو فتح مکہ سے پہلے حرم میں نصب تھا اور کفار مکہ اس کی پرستش کرتے تھے۔
 اے ربِ کعبہ تیری پرستش یہاں کہاں کوئی ہبل پرست ہے کوئی صفا پرست      ( ١٩٣٨ء، چمنستان، ١٩١ )