استاد

( اُسْتاد )
{ اُس + تاد }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ عربی زبان کے لفظ 'استاذ' کا مفرس ہے۔ اردو میں ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : اُسْتانی [اُس + تا + نی]
جمع استثنائی   : اَساتِیْد [اَسا + تِیْد]
جمع غیر ندائی   : استادوں [اُس + تا + دوں]
١ - معلم، آموزگار، (کسی علم یا فن) کا سکھانے والا۔
"شعبہ عربی کے استاد اعلٰی کی جگہ برسوں خالی پڑی رہی۔"      ( ١٩٦٢ء، میزان، ١١٣ )
٢ - شعر یا کلام نثر پر اصلاح دینے والا۔
 نغزگوئی میں بلاغت میں ادا بندی میں بعد استاد کے کوئی نہیں ان کا ہم سر      ( ١٩٠٥ء، گفتار بے خود، ٣٠٤ )
٣ - کامل، ماہر، آزمودہ کار (کسی فن، علم یا صناعت وغیرہ میں)۔
 ریختے کے تمھیں استاد نہیں ہو غالب کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا      ( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٥٩ )
٤ - چالاک، عیار، حراف، شعبدہ باز، مداری۔
"حضرت بڑے ذات شریف اور استاد ہیں۔"      ( ١٩٣١ء، رسوا، خونی راز، ٦٩ )
٥ - دوست، میاں (احترام و خلوص کے الفاظ کی جگہ اور ان کے معنوں میں)۔
 تو بھی اے ناصح کسی پر جان دے ہاتھ لا استاد کیوں کیسی کہی      ( ١٨٩٢ء، مہتاب داغ، ١٥٩ )
٦ - نائی؛ باورچی؛ دلاک؛ حمامی؛ مدک یا چانڈو پلانے والا۔ دریائے لطافت،
٧ - طوائف کو گانا بجانا سکھانے والا، عموماً جی کے ساتھ۔
دور دور کی ڈیرہ دار طوائف کنچنیں اور استاد لوگ بلائے گئے۔"      ( ١٩١٤ء، راج دلاری، ١ )
٨ - بانی، کسی کام کا آغاز کرنے والا، موجد۔
٩ - گرو، پیر و مرشد۔
 جان لی رحم جو ان کو دم بیداد آیا یہ خوش اخلاق کو غصے کا بھی استاد آیا      ( ١٨٧٣ء، کلیات منیر، ٢٢٩:٣ )
  • a master;  crafts master
  • skilful man
  • adept
  • expert;  preceptor
  • tutor
  • teacher;  professor;  clever rogue
  • sharper;  tutor of a dancing girl
  • musician experts
  • proficient
  • skilful
  • clever