کب

( کَب )
{ کَب }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم اور گا ہے متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٩٩ء کو "کتاب نورس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم ظرف زماں ( واحد )
١ - کس وقت، کس دن، کس گھڑی، کس تاریخ کو، کس زمانے میں، کتنی دیر پہلے یا بعد۔
 خوف یہ ہے کہ وفا راس نہ آجائے کہیں اپنے احساس پہ کب داؤ چلے گا اپنا      ( ١٩٨٧ء، زندہ پانی سچا، ٢١٧ )
٢ - وقت گزرنے کے بعد، کام ہونے کے بعد کی جگہ مستعمل۔
 کب ہوئی آپ کو توفیق آہ! جب طاقتِ فریاد نہیں      ( ١٩٤١ء، انوار، ٤٦ )
٣ - مستقبل (بعید کے غیر معلوم زمانے کے لیے) نہ جانے کتنے دنوں میں کتنی مدت کے بعد۔
 کہتی تھی رو کے فاطمہ صغرا ہر ایک صبح کٹ سکتی ہے بھلا یہ شب انتظار کب      ( ١٨٧١ء، ایمان، ٣٦ )
٤ - ہرگز نہیں، کبھی نہیں (استفہام انکاری)۔
 سنتا ہے کب کسی کی وہ دشمن کے رو برو کہہ کر بھی کیوں برے ہوں بھلے آدمی سے ہم      ( ١٩١١ء، دیوانِ ظہیر، ٧٤:٢ )
٥ - بڑی دیر کی جگہ، دیر سے۔
 اب تو باہر آ کہ ہم کب سے کھڑے ہیں منتظر پیکر اپنا تیرے دروازے کا بازو ہو گیا      ( ١٨٣١ء، دیوان ناسخ، ١٤:٢ )
٦ - کسی دفعہ، کون سی بار، کہاں۔
 ایک بوسہ جو دیا بھی تو خفا ہو ہو کر آٹھ آٹھ آنسو نہ تو نے ہمیں رلوایا کب      ( ١٩٠٥ء، دیوان انجم، ٤٥ )
متعلق فعل
١ - کس وقت۔
 کیا مال ہے وہ کاہے کو لینے لگے اسے ہو گا پسند اون کو دلِ داغ دار کب      ( ١٨٧٠ء، الماس درخشاں ٧١ )
٢ - کبھی، گا ہے۔
 سوم دَور سیت مُد سیام مانو نین سندری روپ لچھن بادر انچرتا پر مرت لاگے کب گپت کب پرگٹ دِسے بدن      ( ١٥٩٩ء، کتاب نورس، ٦٨ )