کرامت

( کَرامَت )
{ کَرا + مَت }
( عربی )

تفصیلات


کرم  کَرامَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "فیروز بیدری (اردو ادب)" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : کَرامَتیں [کَرا + مَتیں (یائے مجہول)]
جمع استثنائی   : کَرامات [کَرا + مات]
جمع غیر ندائی   : کَرامَتوں [کَرا + مَتوں (واؤ مجہول)]
١ - عظمت، بزرگی۔
 جی چاہتا ہے ہوکے مخاطب بیان کروں اوصاف ایسے شاہِ کرامت خصال کے      ( ١٨٥٤ء، دیوانِ ذوق، ٢٩٩ )
٢ - خرق عادت جو کسی ولی سے ظاہر ہو (عموماً کشف کے ساتھ مستعمل)۔
"ان کے سینکڑوں مرید تھے اور ہر جگہ ان کی کرامتوں کا چرچا تھا۔"    ( ١٩٨٤ء، طوبٰی، ٤٩٧ )
٣ - [ تصوف ] امرخلاف عادت کے ظہور کو کہتے ہیں جس کا ظاہر کرنے والا مدعی نبوت نہ ہو۔
 دایم بزبان دل لے اللہ کا نام رکھ کشف سے کچھ غرض کرامت سے نہ کام    ( ١٨٣٩ء، مکاشفات الاسرار، ٣٩ )
٤ - بزرگی، نیز عنایت، بخشش، عطیہ۔
 نعمت عشق بٹتی ہے لے لے مستحق ہو جو اس کرامت کا      ( ١٨٤٦ء، کلیات آتش، ٢٢١:٢ )
٥ - شعبدہ، انوکھی بات، کرشمہ، تعجب انگیز بات، استدراج۔
 ثبوتِ کرامت کتابیں مری ہے مقصود و مطلوب کشف الظُّنون      ( ١٩٦٩ء، مزمور میر مغنی، ١٨٦ )
٦ - تصرف، قوت، زور، اثر۔
 حضرتِ دل ہم تو جب جانیں کرامت آپ کی کھا کے دھکے روز اس گھر سے عدو نکلا کرے      ( ١٨٥٤ء، دیوانِ ذوق، ٢٣٢ )
٧ - خوبی، عمدگی، انوکھا پن۔
"احیاء العلوم میں یہ خاص کرامت ہے کہ جس مضمون کو ادا کیا ہے . فلسفہ و حکمت کے معیار سے کہیں اترنے نہیں پاتا۔"      ( ١٩٠١ء، الغزالی، ٦٧:٢ )
٨ - فیض، اثر۔
 یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام      ( ١٩٣٨ء، ارمغان حجاز، ٢١٥ )