اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - اچانک ظہور پذیر ہونے والی کیفیت یا غیر معمولی کام، اعجاز۔
"ان دونوں ناموں کا توارد حسن اتفاق کا کرشمہ ہے۔"
( ١٩٨٥ء، نقد حرف، ٢٦١ )
٢ - آنکھ یا ابرو کا اشارہ۔
عنان ضبط کوئی شیفتہ سے تھمتی ہے کہ ہر کرشمہ ہے چالاک و ہر ادا گستاخ
( ١٨٥٥ء، کلیات شیفتہ، ٣١ )
٣ - ناز و نخرہ۔
"شاعروں کے کلام پر غور کیا تو میں باوجود کوشش کے کبھی نہ سمجھ سکی کہ ادا اور اس کے ساتھ بہت سے الفاظ مثلاً غمزہ، کرشمہ، عشوہ . وغیرہ کسے کہتے ہیں۔"
( ١٩٨٦ء، نیاز فتحپوری شخصیت اور فکر و فن، ٣٣٦ )
٤ - عجیب بات، انوکھی بات۔
پسند چشم کا ہرگز کچھ اعتبار نہیں بس اک کرشمۂ وہم و خیال ہوتا ہے
( ١٩٢١ء، کلیات اکبر، ٣٢٨:٣ )
٥ - خوبی، کمال، نازو انداز۔
تیرے بدن کی لو میں کرشمہ نمو کا تھا غنچے جو تیری سیج پہ جاگے سنور گئے
( ١٩٨٥ء، خواب در خواب، ٢٦ )
٦ - معجزہ، شعبدہ، کرامت۔
کرشمہ اس صدی کا چین اور جاپان میں دیکھا ربڑ کے لوگ ہیں اور "کتنا لوہا کام" کرتے ہیں
( ١٩٨٤ء، ضمیر یات، ١٦ )
٧ - نشان، علامت۔
"عالم کے ذرے ذرے میں خدا کی قدرت کے ایسے بہت سے کرشمے ہیں۔"
( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٢١:١ )
٨ - چال، حرکت، فریب کاری۔
"ہم کسی چاپلوسی، سحر بیانی، کرشمے اور دھوکے کی وجہ سے ہرگز اس کی متابعت نہیں کر سکے۔"
( ١٩٣٢ء، ترجمہ قرآن، تفسیر مولانا شبیر احمد عثمانی، ٢٢ )
٩ - [ تصوف ] جذبۂ عالم و باطن کو کہتے ہیں تاکہ دل سالک کا سلوک میں متغیر نہ ہو اور طلب میں استوار رہے اور بعضے کرشمہ توجہ حق اور تجلی جمالی اور انوارِ معرفت کے پر تو کو کہتے ہیں۔ (مصباح التعرف، 205)