عقیدہ

( عَقِیدَہ )
{ عَقی + دَہ }
( عربی )

تفصیلات


عقد  عَقِیدَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦٧٩ء کو "دیوان شاہ سلطان ثانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : عَقِیدے [عَقی + دے]
جمع   : عَقیدے [عَقی + دے]
جمع استثنائی   : عَقائِد [عَقا + اِد]
جمع غیر ندائی   : عَقِیدوں [عَقی + دوں (و مجہول)]
١ - ایمان، وہ دلی بھروسا یا اعتبار جو کسی امر یا شخص کو درست یا حق سمجھنے سے پیدا ہو، یقین، اعتقاد۔
"اب میرا عقیدہ یہ ہے کہ اردو کی (گراں مایگی) صرف شعرو ادب اور اس مخصوص درباری تہذیب تک ہے جو ہمارے لیے ورثہ میں چھوڑ گئے ہیں۔"      ( ١٩٨٤ء، ترجمہ: روایت اور فن، ٥٥ )
٢ - مذہبی اصول پر اعتقاد، مذہبی یقین، ایمان نیز وہ مذہبی اصول جن پر ایمان لانا ضروری ہو۔
"بحیثیت فنکار (فن کار) میں اپنے عقیدے، تاریخ، تہذیب، معاشرت اور ماحول کا تھوڑا بہت شعور ضرور رکھتا ہوں۔"      ( ١٩٨٢ء، برشِ قلم، ٩ )
١ - عقیدہ بگڑ جانا
ایمان خراب ہو جانا، اعتقاد کمزور پڑ جانا، بے یقینی کا شکار ہو جانا۔ افسوس ہے جہاں کا عقیدہ بگڑ گیا سب متفق ہیں دشمن ایماں دیں ہو تم      ( ١٩١٣ء، دیوانِ پروین، ٧٢۔ )
  • a belief
  • faith
  • firm persuasion;  a creed;  an article of belief;  a doctrine;  a religious tenet