مسلک

( مَسْلَک )
{ مَس + لَک }
( عربی )

تفصیلات


سلک  مَسْلَک

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨١٠ء کو "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : مَسالَک [مَسا + لَک]
جمع غیر ندائی   : مَسلَکوں [مَس + لَکوں (و مجہول)]
١ - راہ، راستہ، چلنے کی جگہ۔
 مسلک خاشاک میں نام ہے اس کا پزید آگ کی دنیا میں جو مثل سمندر جیا      ( ١٩٧٠ء، برش قلم، ٤٢ )
٢ - [ مجازا ]  دستور، آئین، قاعدہ۔
 قتل و غارت گری، خونریزی و نفرت کے سوا کوئی بھی مسلک و آئین ہے کہ نہیں      ( ١٩٩٧ء، افکار، کراچی، دسمبر، (منیب الرحمٰن، ٢٧) )
٣ - [ مجازا ]  مذہب، عقیدہ۔
"وحدت الوجود کے عقیدے یا مسلک کا اصل الاصول عشق ہے۔"      ( ١٩٩٥ء، نگار، کراچی، مارچ، ٣٠ )
٤ - طور، طریقہ، چلن۔
"وقت کے ساتھ ساتھ. "نظریئے کا پرچار" تو باقی نہیں رہا مگر "ابلاغ" ایک مسلک بن گیا۔"      ( ١٩٩٤ء، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، حیات و خدمات، ٤٠٠:٢ )
٥ - [ مجازا ]  نظریہ، مکتبہ فکر۔
"نئے معاشی مسلک (اسکول) نے اپنا عام اصول کار مدّاخلت نہ کرو" قرار دیا۔"      ( ١٩٤٠ء، معاشیات ہند (ترجمہ)، ١٩٢:١ )