کشف

( کَشْف )
{ کَشْف }
( عربی )

تفصیلات


کشف  کَشْف

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "پرت نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - انکشاف کرنا، کھولنا، ظاہر کرنا، عیاں کرنا، نمایاں کرنا، بیان کرنا، اظہار کرنا۔
"جب اولاد کی محبت اور بیٹے کو داؤ پر لگے ہونے کی تڑپ ہو تو باپ کو کشف سا ہونے لگتا ہے۔"      ( ١٩٨٩ء، ترنگ، ٩٥ )
٢ - ظاہر ہونا، انکشاف۔
"علم کلام اس عمدہ مقصد کے لیے کافی نہیں بلکہ کشفِ حقائق کی بہ نسبت اس سے خبط اور گمراہی زیادہ بڑھتی ہے۔"      ( ١٩٠١ء، الغزالی، ١٤٣ )
٣ - پردہ اٹھانا یا اٹھنا۔
"کشف کے لفظی معنی . کھولنے اور پردہ اٹھانے کے ہیں۔"      ( ١٩٨٧ء، سید سلیمان ندوی، ١٧٦ )
٤ - [ تصوف ] سیرو سلوک میں سالک پر غیب کے اسرار ظاہر ہونا نیز سالک کا یہ حال یا مرتبہ۔
"ان پر آیات کا مفہوم کشف کے ذریعے واضح ہو جاتا۔"    ( ١٩٨٣ء، اردو ادب کی تحریکیں، ٨٤ )
٥ - الہام کے ذریعے پوشیدہ چیزوں کا جاننا۔
"آپ کی پہلی زندگی کا سوال تو میں اپنے کشف کی بنا پر بغیر کسی تذبذب کے کہہ سکتا ہوں۔"    ( ١٩٨٧ء، اک محشر خیال، ٤٤ )
  • اَلْہام
  • an opening
  • a declaration
  • solution
  • explanation;  a manifestation
  • disclosure
  • apocalypse
  • revelation;  inspiration