سواد

( سَواد )
{ سَواد }
( عربی )

تفصیلات


سود  سَواد

عربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے بعینہ اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٥٤ء کو "گنج شریف" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - سیاہی، تاریکی، اندھیرا۔
 وہی ہے دن کی مصیبت وہی ہے رات کا غم سواد شام و نمو سحر نے کچھ نہ کیا      ( ١٩٤٢ء، اعجازِ نوح، ٦١ )
٢ - شہر کا گردوپیش یا اطراف و جوانب، حوائی شہر، قُرب و جوار، قریب، نزدیک، پڑوس، نواح۔
"سوادِ شہر شاندار باغات سے پُر ہے۔"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، ٨٥٧:٣ )
٣ - علامہ، سرحد، تعلقہ، شہر، بستی۔
 اُس کی اک روئداد باقی ہے اک اجڑا ہوا سواد باقی ہے      ( ١٩٧٨ء، ابنِ انشاء، دل وحشی، ٥٣ )
٤ - مسودہ؛ تحریر۔
"اسی سبب تو فرلے کے حروف پر حشالیس سمجھ کے بلین پھیرتے سواد اور بیاض کا جھگڑا پاک کرتے ہیں۔"      ( ١٩١٥ء، حاجی بغلول، ١١٧ )
٥ - سیاہ نقطہ جو دل پر ہوتا ہے۔
 نظر گاہ زہرہ ترے نور سے سویدائے قلب و سواد عیون      ( ١٩٦٩ء، مزمور میر مغنی، ١٧٩ )
٦ - پڑھنے لکھنے کا ملکہ، لیاقت۔
"صرف و نحو میں فی الجملہ سواد حاصل کیا۔"      ( ١٨٤٦ء، تذکرہ اہل دہلی، ٣٤ )
  • Blackness;  black colour;  blackening;  soot;  smoke;  black clothing;  the black on inner part of the heart's core;  the rural district (of any province or town)
  • environs of a city)
  • suburbs;  a rough draft;  reading;  ability