پکار

( پُکار )
{ پُکار }
( سنسکرت )

تفصیلات


پھوتکار  پُکارنا  پُکار

سنسکرت سے ماخوذ مصدر 'پکارنا' سے حاصل مصدر 'پکار' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : پُکاریں [پُکا + ریں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : پُکاروں [پُکا + روں (و مجہول)]
١ - آواز، بانگ، صدا، اونچی آواز۔
 کویلوں کی کوک پر کھنچتا ہے دل روح افزا ہے پیہوں کی پُکار      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، سروش ہستی، ٧١ )
٢ - غُل، شور، دھوم، ہنگامہ۔
"آپ نے نکل کر فرمایا کہ یہ کیا جہالت کی پکار ہے۔"    ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٣٣٤:٤ )
٣ - فریاد،۔ دہائی۔
 مولا کے غم میں نوحہ کناں قلب زار ہے نالے جو ہیں زباں پہ یہ دل کی پُکار ہے    ( ١٨٩٣ء، سجاد راے پوری، دیوان (قلمی نسخہ)، ٧ )
٤ - بُلاوا، مانگ، طلب۔
"ملک میں سب طرف اسی مال کی پکار ہے۔"      ( ١٩٢٦ء، نور اللغات، ١٠١:٢ )
٥ - مُنادی، اعلان۔
 بنوش بادہ و در عیش کوش و مستی کن رباب و چنگ و دف و نے کی یہ پکار ہے آج      ( ١٩٢٨ء، سرتاج سخن، ٦٧ )
٦ - [ قانون ]  مستغیث یا مدعا علیہ یا گواہوں میں سے کسی کی طلبی کے لیے صدا جو عدالت کے باہر لگائی جاتی ہے۔
"کاغذ رجسٹرار صاحب کے ہاتھ میں پہنچا ہے، چند ہی منٹ کے بعد پکار ہوئی۔"      ( ١٩٠٠ء، ذات شریف، ٧٤ )