شور

( شور )
{ شور (و مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


شوریدن  شور

فارسی مصدر 'شوریدن' سے فعل امر 'شور' اصل ساخت اور مفہوم کے ساتھ اردو میں داخل ہوا بطور اسم اور صفت مستعمل ہے۔ اور سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - زور کی آواز، غل، غوغا، چیخ و پکار، واویلا، فتنہ، آشوب، ہنگامہ۔
 شورِ جلوت، سکوت خلوت سے جنبشِ صنو، جمود ظلمت سے    ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٢٠٩ )
٢ - [ عورات ] ڈانٹ پھٹکار، غصہ، خفگی سے چلانا۔ (ماخوذ: نوراللغات؛ جامع اللغات)
٣ - شہرت، دھوم، تذکرہ۔
 عجب مقام ہے دشتِ خیال بھی عاصم جو گھر بنا نہیں اس گھر کا شور سنتا ہوں      ( ١٩٨٨ء، آنگن میں سمندر، ٣٨ )
٤ - جنون، عشق۔
 شورتیرا سبھی کے در سر ہے ذکر تیرا یہ شہر گھر گھر ہے      ( ١٧١٣ء، دیوانِ فائز، ١٨١ )
٥ - زور، تلاطم، ولولہ، جوش۔
"سمندروں اور دریاؤں میں شور و روانی ہے۔"      ( ١٩١٤ء، سی پارۂ دل، ٣٢:١ )
٦ - نمک، کھاری نمک۔
"چھوٹے تنے کے پودے، مثلاً ارتمزیا اور وہ پودے جنہیں شور موافق ہے۔"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ ٨٣:٣ )
٧ - [ مجازا ]  نالہ، آہ و فغاں، فریاد۔
 نے فلک پر راہ مجھ کو نے زمین پر رو مجھے ایسے کس محروم کا میں شورِ بے تاثیر ہوں      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٢٣٨ )
٨ - [ کنایۃ ]  زیادتی، بہتات، فراوانی۔
 عرب کے ملک میں نئیں شور ایسا ہمارے ملک میں ہے شور جیسا      ( ١٨٣٠ء، نورنامہ، سورتی، ٣٧ )
٩ - بدقسمتی، بدنصیبی؛ مصیبت۔ (جامع اللغات)
صفت ذاتی
١ - کھاری، نمکین۔
"شیریں و شور سب مل کر ایک ہو جائیں۔"      ( ١٩١١ء، تفسیر القرآن الحیکم، احمد رضا خاں بریلوی، ٩٣٩ )
٢ - [ کنایۃ ]  بنجر، اجاڑ۔
"عرب کا ملک ایسی وسعت کے باوجود زیادہ تر بے آباد، خشک، شور اور ریگستان ہے۔"      ( ١٩١٥ء، ارض القرآن، ٨٥:١ )
٣ - [ مجازا ]  متلاطم، موّاج، ولولاانگیز، پرجوش۔
 ایسے شور دریا میں آکر بہا خبر کچھ نہ پایا کہاں وہ رہا      ( ١٧٥٢ء، قصد کام روپ و کلا کام، ٥٤ )
٤ - (ذہنی طور پر) پریشان، پاگل، جنونی۔ (پلیٹس؛ جامع اللغات)
  • Disturbed (in mind);  salt
  • brackish