لکیر

( لَکِیر )
{ لَکِیر }
( سنسکرت )

تفصیلات


لک  لَکِیر

سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم 'لک' کے ساتھ 'یر' بطور علامت حاصل مصدر لگانے سے 'لکیر' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٠٣ء کو "شرح تمہیدات ہمدانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : لَکِیریں [لَکی + ریں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : لَکِیروں [لَکی + روں (و مجہول)]
١ - وہ نشان جو خط کی شکل میں کسی چیز کی سطح پر پڑ جائے، لیک، ریکھا، دھاری، لائن۔
"دائیں طرف والی لکیر آؤٹ پٹ کو ظاہر کرتی ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، ماڈل کمپیوٹر بنائیے، ٢٩ )
٢ - قطار، سلسلہ۔
"کرکٹ کے گیارہ کے گیارہ کھلاڑی ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ایک سیدھی لکیر بناتے ہیں، ایک ایسی لکیر جو کرکٹ کے قواعد و ضوابط کے تابع ہے۔"      ( ١٩٨٩ء، سمندر اگر میرے اندر گرے، ٢١ )
٣ - سطر
"لفظوں کے انبار سے تم نے کیا نکالا یا یوں ہی حرفوں کا لکیروں کو پڑھ ڈالا۔      ( ١٩٢١ء، توپ خانہ، ٢٣ )
٤ - [ مجازا ]  پرانا دستور، قدیم طریقہ یا رسم، روش۔
"اس وقت ہم محض ایام گزشتہ کی لکیر پر چل رہے ہیں۔"      ( ١٩١٣ء، تمدن ہند، ٥٣٠ )
٥ - سانپ کے چلنے کا نشان۔ (فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات، نوراللغات)۔
٦ - [ مجازا ]  خراش۔
 دیکھ سینے میں پڑ نہ جائے لکیر ہے یہ صہبائے عشق تند اور تیز      ( ١٩٥٩ء، گل نغمہ، فراق کو رکھ پوری، ١٥٧ )
٧ - دھاری، چھکڑوں اور گاڑیوں کے پہیوں کے نشان جو سڑکوں یا زمین پر پڑ جاتے ہیں۔" (فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات)۔
١ - لکیر کا فقیر ہونا
مقلد محض ہونا، اندھی تقلید کرنا، پرانے رسم و رواج یا آداب کا پابند یا دلدادہ ہونا، پرانے دستور پر چلنا، پرانی روش کی پابندی کرنا۔ ظاہر ہوئی کمیٹی کی، کالج کی اک لکیر آخر اس لکیر کے سب ہو گئے فقیر      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٢٣١:٢ )