کمان

( کَمان )
{ کَمان }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٤٢١ء کو "بندہ نواز گیسو دراز" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : کَمانیں [کَما + نیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : کَمانوں [کَما + نوں (واؤ مجہول)]
١ - تیر چلانے کا قوسی شکل کا آلہ، قوس (شعرا محبوب کی بھوؤں سے تشبیہہ دیتے ہیں) ایک قدیم ترین غیر آتشیں حربہ جو بانس یا فلزات کے لچک دار لمبے ٹکڑے کے دونوں گوشوں میں ڈوری یا تانت باندھ کر بنایا جاتا اور جس کے ذریعے تیر یا غُلہّ نشانے پر مارتے۔
"سیہ شاخ کی کمان سے تیر چل رہے ہیں۔"      ( ١٩٨٨ء، آج بازار میں پانجولاں چلو، ٦٢ )
٢ - دھنک قوس قزح۔
"تم نے برسات کے دنوں میں آسمان پر کمان نکلی دیکھی ہو گی۔"      ( ١٩١٧ء، شام زندگی، ٨٠ )
٣ - محراب، ڈاٹ، طاق، دائرے کا کوئی حصہ، قطع دائرہ۔
"ایک پُل کی تین کمانیں ہیں جن کے عرض بالترتیب ٤٩ فٹ ٣٢ فٹ اور ٤٩ فٹ ہیں۔"      ( ١٩٤٠ء، علم ہندسۂ مستوی، ١٠٣:٥ )
٤ - وہ قوس کی شکل جو فرامین پر بنی ہو۔ (نوراللغات)۔
٥ - آسمان کے بارہ برجوں میں نویں برج کا نام، دھن راس۔
 نہ آسمان دستا نہ دستی زمیں زمیں بھار سیتی کماں ہو خمی      ( ١٥٦٤ء، دیوان حسن شوقی، ١٠٨ )
٦ - [ کنایۃ ]  کوزہ ہشت، کُب، جھکی ہوئی کمر، کبڑا پن۔
"ایک جوان عورت نے کسی بڑھیا کو کوزہ پشت دیکھ کر کہا کہ بڑی بی یہ کمان کتنی قیمت میں فروخت کرتی ہو۔"      ( ١٨٧٣ء، عقل و شعور، ٥٨ )
٧ - لچکیلا، لچکدار، لرزاں، لرزتا ہوا، جس میں لرزش ہو۔ (ماخوذ: نوراللغات، علمی اردو لغت، فرہنگ آصفیہ)
  • a bow;  an arch;  a spring;  the sign Sagittarius