خم

( خَم )
{ خَم }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ فارسی سے اردو میں داخل ہوا۔ اردو میں بطور اسم اور گا ہے بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٦٤٥ء کو "قصہ بے نظیر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - کجی، ٹیڑھ، ترچھاپن، خمیدگی، جھکاؤ۔
"کسی حد سے گزرتے وقت . مختلف رنگ کی شعاعوں میں خم یا انعطاف مختلف ہوتا ہے"      ( ١٩٤٥ء، طبیعیات کی داستان، ٢٠٣ )
٢ - پیچ، بل، گھونگھر (بالوں کا)۔
 جس کی سانسوں کی مہک عطر کو شرماتی تھی اس کی زلفوں کے خم مشک بداماں کو سلام    ( ١٩٦٥ء، دامنِ یوسف، ٧١ )
٣ - گھماؤ، پھیر، موڑ۔ (جامع اللغات)
٤ - پھندا، پھندے کا وہ حصہ جو گلے میں پڑتا ہے۔ (پلیٹس)
٥ - [ سپاہ گری ]  ہاتھ کی کہنی سے اوپر کا حصہ (ڈنڈ) جو ورزش کی وجہ سے موٹا اور گٹھیلا ہو جاتا ہے، اوپر کا بازو۔ (نوراللغات؛ پلیٹس؛ اصطلاحات پیشہ وراں، 26:8)
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - جھکا ہوا، خمیدہ، مڑا ہوا۔
 نفس کا سلسلۂ تیز رک چلا آجا کمر بھی خم ہے مرا سر بھی جھک چلا آجا      ( ١٩٨٣ء، سمندر، ٥٥ )
١ - خم دینا
جھکانا، کبڑا کر دینا (پشت کے ساتھ)، ٹیڑھا کرنا، بل ڈالنا۔"پیچھے چاندی کی ڈنڈی میں خم دیا ہوا ہے۔"      ( ١٨٨٥ء، بزم آخر، ٢٦ )