اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - تعلق، واسطہ، نسبت، علاقہ۔
"اس کو ایک لگاؤ تو عالم غیب سے ہے اور دوسرا عالم شہود سے۔"
( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ ، ٤٠٣:٤ )
٢ - دلی وابستگی، تعلق خاطر، شبفتگی، محبت، پیار۔
"اور جمی جولا ہے کہ شیاما کے ساتھ لگاؤ تھا۔"
( ١٩٨٦ء، جوالامکھ، ١١٥ )
٣ - رسائی، پہنچ، دخل۔
"غرض کہ کسی جانب سے چور کا لگاؤ نہیں ہے۔"
( ١٨٩٩ء، امراؤ جان ادا، ١٨٥ )
٤ - راہ و رسم، میل ملاپ، ربط ضبط، میل جول۔
"ایاز کے چھوٹے بیٹے کا میرے ساتھ بہت لگاؤ تھا۔"
( ١٩٨٨ء، نشیب، ٣٠٢ )
٥ - رشتہ، ناتا، قرابت، یگانگت۔ (فرہنگ آصفیہ، نور اللغات)۔
٦ - شرکت، مشارکت۔
"یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچ گیا کہ بخش علی کا بھی ان انسانیت سوز کارروائیوں میں دخل اور لگاؤ ہے۔"
( ١٩٥٦ء، بیگمات اودھ، ١٤٧ )
٧ - رحجان، میل خاطر، میلان طبع۔
"سودا کو مزاجاً ویسے بھی تجارت سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔"
( ١٩٧٥ء، تاریخ ادب اردو، ٦٥٨:٢ )
٨ - ایما، اشارہ۔
"اس بات میں ان کا بھی کچھ نہ کچھ لگاؤ ہے۔"
( ١٩٠١ء، فرہنگ آصفیہ، ٢٠٣:٤ )
٩ - عشق کی تہمت۔
یہ لگاؤ تو مجھے اس کا مزا دیتا ہے مجکو ہر ایک سے ناحق جو لگا دیتا ہے
( ١٩٠١ء، فرہنگ آصفیہ، ٢٠٣:٤ )
١٠ - ملاؤ، لاگ، آمیزش۔
"خالص پارسی زبان لکھی جائے جس میں عربی کا مطلق لگاؤ نہ ہو۔"
( ١٩٣٥ء، چند ہمعصر، ٤٤١ )
١١ - مناسبت، ہم آہنگی۔
"اس میں ایک خاص موضوع سے لگاؤ پیدا کرتا ہے۔"١٩٨٦ء، نفسیاتی تنقید، ٢٤٦
١٢ - ایسا برتاؤ جس میں التفات پایا جائے۔
لاکھوں لگاؤ ایک چرانا نگاہ کا لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں
( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٨٩ )
١٣ - موقع۔
عید بھی وصل سے چلی خالی کچھ گلے لگنے کا لگاؤ نہیں
( ١٨٦٧ء، رشک (نور اللغات)۔ )
١٤ - ربط، رابطہ، بندھن، بندش۔
"ہر ایک گاڑی زنجیر کے لگاؤ سے اوس کے ساتھ چل نکلتی۔"
( ١٨٤٧ء، عجائبات فرنگ، ١٨ )
١٥ - مشابہت، مطابقت، جوڑ۔
"دو نوع ٹھہرانے کی یہ وجہ ہے کہ تین پہلے ایک لگاؤ کے ہیں اور تین پچھلے ایک لگاؤ کے۔"
( ١٨٤٥ء، علم الفرائض، ١٦ )
١٦ - ایک مکان سے دوسرے مکان میں آمد و رفت کی گنجائش یا جگہ۔
"امیر نے اس قلعے کے سب لگاؤ معلوم کر لیے تھے، تھوڑے دنوں میں مورچہ لگا دیا، دمدمہ باندھ. قلعے پر چڑھ گیا۔"
( ١٨٢٤ء، سیر عشرت، ٣٨ )
١٧ - سر کی ضرب کو دونوں ہاتھوں سے بیچ لکڑی پر روکنے کو لگاؤ کہتے ہیں۔ (حربۂ احمدیہ، 2)