سیرت

( سِیرَت )
{ سی + رَت }
( عربی )

تفصیلات


سییر  سِیرَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے من و عن اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : سِیرَتیں [سی + رَتیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : سِیرَتوں [سی + رَتوں (و مجہول)]
١ - عادت، خصلت، خُو۔
"آپۖ نہایت نرم مزاج، خوش اخلاق اور نِکو سیرت تھے۔"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ٢٩١:٢ )
٢ - کردار کی پاکیزگی، حالتِ باطنی، ذاتی وصف، خُوبی۔
"اس کی زیر کی اور عیاری بددیانت سرمایہ داروں کی سیرت کا آئینہ ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، اک محشر خیال، ٤٠ )
٣ - سوانح عمری، زندگی کے حالات و واقعات کا تذکرہ؛ سوانح نگاری۔
" 'سیرتِ نبویہ' کا ایک ایک حرف نبوت پر شاہدِ عدل ہے۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ١٨٦:٣ )
٤ - حضرت محمد مصطفٰیۖ کے حالات و واقعاتِ زندگی کا تذکرہ، سیرتِ نبوی۔
"پھر پورب کے سفر سے واپسی کے کچھ عرصے کے بعد سیرت کی ایک مختصر سی کتاب میرے ہاتھ لگ گئی۔"      ( ١٩٦٢ء، محسن اعظم اور محسنین، ٦ )
  • way of life
  • conduct
  • character
  • nature
  • disposition;  virtue
  • morals;  qualities