ترانہ

( تَرانَہ )
{ تَرا + نَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦١١ء کو قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : تَرانے [تَرا + نے]
جمع   : تَرانے [تَرا + نے]
جمع غیر ندائی   : تَرانوں [تَرا + نوں (و مجہول)]
١ - عام نغمہ یا گیت؛ الاب؛ ایک خاص قسم کی لے یاسر؛ ایک خاص قسم کا گیت۔
"خسرو کا نام کئی راگوں کی ایجاد کے سلسلے میں بھی لیا جاتا ہے، مثلاً سر پردہ . ترانہ ."      ( ١٩٥٨ء، ہندوستان کے عہد وسطٰی کی ایک جھلک، ٤٦٢ )
٢ - [ تصوف ]  آہنگ محبت کو کہتے ہیں جس کے سننے سے سالک پر مستی اور بے خودی طاری ہوتی ہے۔
"محبت کے اظہار اور منزل عشق میں قدم رکھنے کو ترانہ کہتے ہیں۔"      ( ١٩٨٢ء، روحانی ڈائجسٹ، ٨٧ )
٣ - [ موسیقی ]  وہ خاص گانا جس میں بجائے معنی دار الفاظ کے چند مخصوص بے معنی الفاظ، جیسے: تا، توم، تا، نا، تنا، نا، در، نا وغیرہ۔ (ماخوذ: مہذب اللغات)
  • modulation
  • melody
  • harmony
  • symphony;  voice
  • song
  • tune
  • air;  trill
  • shake
  • quaver;  a kind of song;  an exercise in singing