زمزمہ

( زَمْزَمَہ )
{ زَم + زَمَہ }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'زم زم' کے ساتھ 'ہ' بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے 'زمزمہ' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٣٩ء کو "طوطی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم صوت ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : زَمْزَمے [زَم + زَمے]
جمع   : زَمْزَمے [زَم + زَمے]
١ - دھیمے سروں کا راگ، کم آواز کا راگ، ترانہ، نغمہ، گانا۔
 دشت غربت میں عبادت حسن پیکر ہو گئی زمزمہ ساز اذاں آواز اکبر ہو گئی    ( ١٩٨١ء، شہادت، ٥٢ )
٢ - وہ آواز جو گلے کے انتہائی اندر سے ایک خاصی حرکت کے ساتھ نکلے، گٹکری، مرکی۔
"اسی مقام پر جہاں بندش میں خوبصورت مرکی یا زمزمہ ہو گاتے وقت . ہاتھ ہلاتے تھے۔"    ( ١٩٦١ء، ہماری موسیقی، ٤٧ )
٣ - چہچہانا، نغمہ سرائی کرنا۔
 غنچوں کا میں تبسم موجوں کا میں ترنم طوطی کا زمزمہ ہوں، بلبل کا چہچہہ ہوں      ( ١٩٨٢ء، ط ظ، ١٢ )
٤ - وہ آواز جو کچھ دور سے آئے اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح سنائی دے۔
"مثل زمزمۂ زنبور مراد اس سے اور داد شب ہیں۔"      ( ١٨٥١ء، عجائب القصص (ترجمہ)، ١٨٩:٢ )
٥ - وہ نیم غنائی الفاظ جو آتش پرست اپنی عبادت یا کھانا کھانے کے وقت ادا کرتے ہیں، اس میں ہونٹ یا زبان نہیں ہلتی بلکہ ناک اور حلق سے آواز نکلتی ہے۔
 روح پرور تھے دعاؤں کے مقدس زمزمے ہر حسیں صورت جواب آفتاب و ماہ تھی      ( ١٩٨٦ء، قطعہ کلامی، ٥٣ )
٦ - تلوار کے چلنے کی آواز، کھنک۔
 نغمہ ہے لے میں تری خون کے فواروں کا زمزمہ تجھ میں ہے چلتی ہوئی تلواروں کا      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٤٨ )
٧ - خوش الحانی، لحن، خوش گلوئی۔
 بے حقیقت نے کے اندر زمزمہ داؤد کا عارضی محدود ہر اک عکس لامحدود کا      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٥٧ )
  • singing
  • chanting
  • intoning;  chant;  modulation;  humta low murmuring sound