دیوانہ

( دِیوانَہ )
{ دی + وا + نَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اصل صورت اور مفہوم کے ساتھ اردو میں داخل ہوا اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٤٢١ء کو "خواجہ بندہ نواز (دکنی ادب کی تاریخ)" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : دِیوانی [دی + وا + نی]
واحد غیر ندائی   : دِیوانے [دی + وا + نے]
جمع   : دِیوانے [دی + وا + نے]
جمع ندائی   : دِیوانو [دی + وا + نو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : دِیوانوں [دی + وا + نوں (و مجہول)]
١ - دماغی مریض کی ایک کیفیت جس سے حواس میں خلل واقع ہو جاتا ہے۔
 دے گیا زندگی کا نذرانہ کس قدر ہوش میں تھا دیوانہ      ( ١٩٨٣ء، حصارِ انا، ٣٤ )
٢ - وارفتہ، فریفتہ۔
 بنایا ہے تجھے دیوانہ کس نے تجھے یہ کون، یوں تڑپا رہا ہے      ( ١٩٨٤ء، سمندر، ٣٢ )
٣ - [ مجازا ]  بے وقوف، احمق۔
"بات بھی کہی تو کچی . اس میں تو اُلٹے دیوانے بنو گے۔"      ( ١٩١٧ء، طوفانِ حیات، ٣٧ )
٤ - شوقین، صاحبِ ذوق۔
"ایک آرٹسٹ ہے رکھ رکھاؤ کا ایک دیوانہ ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، اوکھے لوگ، ٢٢٥ )
٥ - [ تصوف ]  سالک، صوفی، مستِ خدا، اوسکو کہتے ہیں جو کہتے ہیں جو اپنی خودی سے بیگانہ اور طلبِ حق میں حیران ہو۔
 بحر ہستی میں کنول کی طرح تر دامن نہیں ہوش مندِ خود فراموشی ہے دیوانہ ترا      ( ١٩١٩ء، مطلع انوار، ٣٥ )