اسم

( اِسْم )
{ اِسْم }
( عربی )

تفصیلات


سمو  اِسْم

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر ہے۔ اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦١١ء کو قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : اَسْما [اَس + ما]
جمع غیر ندائی   : اِسْمُوں [اِس + موں (و مجہول)]
١ - نام، وہ لفظ جو کسی شخص شے کیفیت وصف یا کام وغیرہ کا نام ہو۔
"اب یہ ایک اسم ہے بلامسمی۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ١٢٨ )
٢ - اللہ تعالیٰ کے کسی جلالی یا جمالی نام یا اسم اعظم کا ورد؛ بزرگان دین میں سے کسی کے نام کا وظیفہ، پڑھنت؛ (روایتی طور پر) کوئ خاص تاثیر رکھنے والی دعا۔
 سیفی اسی کے ورد کی تو ایک قسم ہے مشکل کشائیوں کی ضمانت یہ اسم ہے
٣ - شخص، فرد۔
"مٹھائ اور روپیہ سر اسم تقسیم ہوا۔"      ( ١٩٢٣ء، اودھ پنچ، لکھنو (ضمیمہ)، ١٩، ٦٦:٣٣ )
٤ - ملازم، (مزدور یا وظیفہ یاب وغیرہ کی) اسامی، نفری۔
"دربار واجدی کے مجرائیوں میں اسم تھا۔"      ( ١٩٣٦ء، ہنرمندان اودھ )
٥ - [ تصوف ]  ذات مسمٰی صفت وجودیہ کے اعتبار سے ہو یا صفت عدمیہ کے اعتبار سے۔ (مصباح التعرف لارباب التصوف، 33)
٦ - [ صرف ]  وہ کلمہ جس کے معنی مستقل ہو اور اس میں زمانہ نہ پایا جائے۔
 تمھارے سامنے کچھ مغربی ضوابط ہیں یہ اسم و فعل نہیں ہیں فقط روابط ہیں      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٤١٠:٢ )