"تبدیلی کا یہ عمل کہیں دھیما ہے کہیں پر جوش۔"
( ١٩٨٧ء، افکار، کراچی، جولائی، ١٥ )
٢ - ٹھنڈا، فرو، زائل۔
"منجھلے بھیا جب . گاؤں سے جا کر واپس آئے تھے تو کچھ دن کو بہت دھیمے اور نرم پڑ گئے تھے۔"
( ١٩٨١ء، چلتا مسافر، ٩٠ )
٣ - خوش گوار، لطیف۔
"تلفظ اور لفظوں پر زور دینے کے عام انداز کا مشاہدہ کرنا بھی ضروری ہے کیا یہ ہندوستانی کی طرح خفیف، سخت اور پھیکا ہے یا پنجابی کی طرح دھیما۔"
( ١٩٤٨ء، ہندوستانی لسانیات کا خاکہ، ١٢٥ )