سست

( سُسْت )
{ سُسْت }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٠٣ء کو "شرح تمہیدات ہمدانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - ناتواں، کمزور۔
 سست ہیں لیکن نہیں ہے ظاہراً کوئی مرض تیری آنکھوں کی طرح برسوں سے ہیں بیمار ہم      ( ١٨٨٦ء، دیوان سخن، ١٣٠ )
٢ - بے معنی، بے محل۔
"دقیقی کی یہ نظم دیکھی تو تمام اشعار مجکو سست اور غلط نظر آئے۔"      ( ١٩٠٧ء، شعرالعجم، ٤٨:١ )
٣ - کام میں لیت و لعل کرنے والا، کاہل، احدی، بے عمل۔
"وہ سمجھا یہ تھا کہ میراں حسین کے سر کو دیکھ کر اس کے ہوا خواہ پست و سست ہو جائیں گے۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٤٧٥:٥ )
٤ - اداس، آزردہ، ملول، دلگیر۔
 تو ہم کا بیٹھا جو نقش درست لگی ہونے وسواس سے جان سست    ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٩٧٥ )
٥ - ماندہ، نڈھال، مضمحل (کسی مرض یا تکان وغیرہ کی بنا پر)۔
"بی بی کیوں مزاج آج کیسا ہے، کچھ سست سی معلوم ہوتی ہو۔"    ( ١٩٠٣ء، بچھڑی ہوئی دلہن، ٦٨ )
٦ - جس کی حرکت بہت دھیمی ہو، بطی الحرکت۔
"٣٨ء کے بعد اس کا کام سست پڑ گیا۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٢٩٤ )
٧ - مندا، معمول سے کم۔
"ریاضی کی ترقی اور تشکیل بہت تدریجی اور سست رہی ہے۔"      ( ١٩٤٥ء، داستان ریاضی، ٢٣ )
٨ - جس کا ذہن یا عقل وغیرہ کمزور ہو، کم سمجھنے والا۔
 او سست خرد چرب زبانی نہیں اچھی جراروں سے یہ تیز زبانی نہیں اچھی      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٣٥:٥ )
٩ - کم شہوت، ضعیف الباہ۔ (فرہنگ آصفیہ)
١٠ - ناملائم، نامناسب، نازیبا( بات وغیرہ)۔
"ان کو سر اجلاس سخت و سست کہا کرتا۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ١٩:١ )
١ - سست کرنا
ڈھیلا کرنا کمر بند ٹک سست اپنا کیا سپر کے اپر ٹک او تکیہ دیا      ( ١٦٤٩ء، خاور نامہ، ٢٦ )
چھوڑ دینا، عمل نہ کرنا۔"پس جو کوءی کہ ان بہت چھوٹے حکموں میں سے ایک کو سست کرے، اور ویسا ہی آدمیوں کو سکھا دے، آسمان کی بادشاہت میں کمترین کہلائے گا۔"      ( ١٨١٩ء، انجیل مقدس، ١٠ )
  • Indisposed
  • heavy
  • languid;  feeble
  • week;  idle
  • lazy