باوا

( باوا )
{ با + وا }
( ہندی )

تفصیلات


ہندی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧٢١ء کو "انوار سہیلی، ابراہیم بیجاپوری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : باوے [با + وے]
جمع   : باوے [با + وے]
جمع غیر ندائی   : باووں [با + ووں (واؤ مجہول)]
١ - باپ، والد، پتا۔
"بیٹا روتا بسورتا باوا کے پاس آیا۔"      ( ١٩٥٤ء، پیر نابالغ، ٥٠ )
٢ - بزرگ، بڑا، سردار یا والی۔
"کلکٹر نہیں کلکٹر کا باوا بھی ہو تو ان کا کچھ نہیں کر سکتا۔"      ( ١٨٨٨ء، ابن الوقت، ٢٨١ )
٣ - استاد، گرو۔ (جامع اللغات، 401:1)
٤ - فقیر، سنیاسی۔ (ماخوذ: فرہنگِ آصفیہ، 361:1ء نوراللغات، 556:1)
٥ - میاں، بھائی، حرف تخاطب جو اکثر ناراضی و استکراہ کے موقع پر مستعمل ہے۔
"اچھا باوا تم اندر جاؤ حماقت کی گٹھری بھی میں ہی سر پر اٹھا کر لاتا ہوں۔"      ( ١٩٠٧ء، سفید خون، ٤١ )
٦ - بچہ، بیٹا۔
 بچاری او لگی کہنے کہ باوا پڑے ان پر ترے جیو جان کا ہتیا      ( ١٧٢١ء، انوار سہیلی، ابراہیم بیجاپوری، ٦٨ )
  • father;  superior;  arch-rogue