فرض

( فَرْض )
{ فَرْض }
( عربی )

تفصیلات


فرض  فَرْض

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی اور ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٦٩٩ء کو "نور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : فَرائِض [فَرا + اِض]
جمع غیر ندائی   : فَرْضوں [فَرْ + ضوں (و مجہول)]
١ - [ فقہ ]  وہ عمل جو دلیلِ قطعی سے ثابت ہوا اور اس میں شبہ نہ ہو، جیسے: نماز روز وغیرہ اس کا منکر کافر ہے اور تارک مستوحبِ عذاب، فرمودۂ خداوندی، جس کا کرنا لازمی ہو۔
"مال کا چالیسواں حصہ بطور زکوٰۃ دینا فرض ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، روشنی، ١٣٩ )
٢ - ضروری، لازمی، واجب۔
"ترجمے میں مترجم پر مصنف کے خیالات کی پابندی فرض ہوتی ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، ترجمہ روایت اور فن، ٤١ )
٣ - منحصر، موقوف۔
"ایک مجھ پر کیا فرض ہے جو پڑھی لکھی ہو گی وہ پڑھے لکھے ہی کو چاہے گی۔"      ( ١٨٨٠ء، فسانہ آزاد، ١٤٩:١ )
٤ - نقل کے علاوہ وہ نماز جو پانچ وقت واجب کی حیثیت سے پڑھی جاتی ہے۔
"آزادی نے اوپر جا کر وضو کیا سنتیں پڑھیں فرضوں کی نیت باندھی۔"      ( ١٨٩١ء، ایامٰی، ٨٠ )
٥ - ذمہ داری، ڈیوٹی، کارمنصبی۔
"صرف میرا فرض باقی رہتا تھا۔"      ( ١٩٨٨ء، نشیب، ٧٤ )
٦ - مرنے والے کے ورثے اور ترکے کی وہ تقسیم جو ارزوئ واجب ہے (مہذب اللغات)
٧ - تشخیص، تعین، اندازہ، کسی چیز کا وقت مشخص کرنا؛ کنایۃً نکاح۔ (نوراللغات؛ فرہنگِ آصفیہ)
  • divine command
  • a duty
  • the ommision of which is considered as a mortal sin
  • an obligation