بوٹی

( بُوٹی )
{ بُو + ٹی }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم 'بوٹا' کا 'الف' مبدل بہ 'ی' بطور لاحقۂ تصغیر لگانے سے 'بوٹی' بنا۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٦٥ء کو "علی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم تصغیر ( مؤنث - واحد )
جمع   : بُوٹِیاں [بُو + ٹِیاں]
جمع غیر ندائی   : بُوٹِیوں [بُو + ٹِیوں (واؤ مجہول)]
١ - چھوٹا پودا، چھوٹا بوٹا، چھوٹا پھول، پھول پتی۔
 پھول سے کم نہیں ہے باغ میں ہر ایک بُوٹی گل و بلبل میں محبت ہوئی یہ بُو پُھوٹی      ( ١٩١٧ء، رشید، گلزار رشید، ٤٦ )
٢ - چھوٹا جنگلی پودا یا اس کے اجزا جو دوائیوں کے کام آتے ہیں، جڑی بُوٹی۔
"سانپ نیولے کو ڈس لیتا ہے تو نیولا بھاگا ہو جاتا ہے اور کوئی بوٹی کھ لیتا ہے۔"    ( ١٩٠١ء، جنگل میں منگل، ٢٦٦ )
٣ - وہ پودا جس کی تلاش میں مہوس رہتے ہیں اور جو ان کے خیال میں دھات کا قلب ماہت کر دیتی ہے۔
 بوٹیوں کے منتروں کے علم میں گو کہ پیدا ہو نہ کوئی ہوشیار    ( ١٩٥٥ء، مدرا راکھشش، منور لکھنوی، ٩٤ )
٤ - زمین سے لگی لگی پھیلنے والی نباتی (اصطلاحات پیشہ وراں، 130:6)؛ پتے اور گھاس کی ادنٰی روئیدگی جو کبھی چوبی نہیں بنتی (تربیت جنگلات، 5)
٥ - پھول پتی جو کپڑے یا کاغذ وغیرہ پر بنائی جاتی ہے۔
 بھری بوٹیوں سے ردائے فلک بنی بیل خود کہکشاں کی سڑک      ( ١٩٣٣ء، بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر، ٣٤٧ )
٦ - بھنگ
"یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کرتی ہو بہن، بُوٹی پی کر آئی ہو کیا۔"      ( ١٩٠٣ء، سرشار، پی کہاں، ٦٧ )
٧ - تاش کے پتے پر بنی ہوئی ٹکی یعنی، اینٹ پان وغیرہ کی شکل۔ (سنچہپت۔ ہندی شبد ساگر، 828)
  • flower or sprig of a plant