سبزی

( سَبْزی )
{ سَب + زی }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'سبز' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت و تانیث لگانے سے 'سبزی' بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم اور گا ہے بطور اسم صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٤٧ء کو "عجائبات فرنگ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع   : سبزیاں [سَب + زِیاں]
جمع غیر ندائی   : سَبْزیوں [سَب +زِیوں (واؤ مجہول)]
١ - سبزاہٹ، ہراپن، ہرارنگ، سبزرنگ۔
"تم نے ہرے دروازوں پر سفید رنگ تو پھیر دیا لیکن جو سبزی جھلک رہی ہے اس کو کیا کرو گے"      ( ١٩٦٩ء، مہذب اللغات، ٣٣٧:٦ )
٢ - خوشمنائی، سانولاپن، سانولی رنگت۔
"اب رہا رنگ تو وہ کالا کوئلہ نہ سہی مٹیالا ضرور ہے . اس رنگ میں بھی کہیں کہیں سبزی جھلک رہی ہے"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ١٤٢:٤ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : سَبْزِیاں [سَب + زِیاں]
جمع غیر ندائی   : سَبْزِیوں [سَب + زِیوں (واؤ مجہول)]
١ - نباتات، گھاس پھوس، ہریالی، ہرپاول۔
"کانگرو جماعت کے کل جانور سبزی خور ہیں اور گھاس وغیرہ پر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں"      ( ١٩٣٢ء، عالم حیوانی، ٤٩ )
٢ - پتوں والی ترکاری، ساگ پات، ہری ترکاری
"مدینے کے بازار میں سبزی بک رہی تھی، ایک بڑھیا سبزی فروش نے بھی اپنی دوکان سجا رکھی تھی"      ( ١٩٨٥ء، روشنی، ٥٠٨ )
٣ - رونق، شادابی، تازگی، طراوت، سرسبزی۔
"سوکھے ہوئے دل کی کیاری پر سبزی کا پانی چھڑکتا ہے"      ( ١٩٠١ء، عشق و عاشقی کا گنجینہ، ١٠٩ )
٤ - پھول کا نچلا حصہ، ڈنٹھل۔
"گڑھل کے پھول سبزی دور کیے ہوئے سو عدد"      ( ١٩٣٠ء، جامع الفنون، ١٢٨:٢ )
٥ - وہ رنگت جو رخساروں پر نیا خط نکلنے سے نمودار ہوتی ہے۔
"لب بالا پر سبزی ہوتی ہے آخر عمر میں ان کے منہ پر داڑھی نکل آتی ہے"      ( ١٩١٨ء، بہادر شاہ کا مولا بخش ہاتھی، ٤ )
٦ - کانوں کا ایک جڑاؤ زیور، بندہ۔
"اور طرح طرح کے زیور جڑاؤ مرصع کار . سبزی، پتے، جھمکے پانچ لڑے ست لڑے"      ( ١٨٦٣ء، انشائے بہار بے خزاں، ٥٣ )
٧ - بھنگ۔
"مشہور ہے کہ ایک بھنگڑ خانے میں کسی بھنگڑی نے سبزی کے رنگ میں جلا کر کہا واہ رہے محمد شاہ رنگیلے"      ( ١٨٩٠ء، رسالہ حسن، ٣، ٣٦:٩ )
٨ - وہ رنگت جو فولاد کے جو ہر میں ہوتی ہے، سبزہ فولاد۔
 کمر باندھے ہوں مرنے پر تمنائے شہادت ہے حسام پار کی سبزی سے گل پھولے تو جنت ہے      ( ١٨٧٨ء، بحرر مہذب اللغات، ٣٣٩:٦ )