معیار

( مِعْیار )
{ مِع (کسرہ م مجہول) + یار }
( عربی )

تفصیلات


عیر  مِعْیار

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے، اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے، ١٨٩٤ء کو "تعلیم الاخلاق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : مِعْیارات [مِع + یا + رات]
جمع غیر ندائی   : مِعْیاروں [مِع + یا + روں (و مجہول)]
١ - پیمانہ، ناپ، اعمال و افعال کی پرکھ، نصاب۔
"ہر شخص کی دوستی کا اپنا معیار ہوتا ہے، آپ غیرمسلم سے بھی دوستی رکھتے ہیں۔      ( ١٩٨٩ء، میں اور میرا پاکستان، ١١٣ )
٢ - پرکھ یا جانچ پڑتال کا طریقہ، کسوٹی، ممک۔
"ان کے تنقیدی معیار اردو شاعری کے کلاسیکی معیار ہیں۔"      ( ١٩٩٨ء، صحیفہ، لاہور، جولائی، ٣٧۔ )
٣ - سونا چاندی تولنے کا کانٹا۔ (ماخوذ: فرہنگ آصفیہ)
٤ - اصول، ضابطہ۔
"سولہ (١٦) حروف علت کے منجملہ آخری حرف علت ہندی میں ہے، اول تو تلفظ کے معیار سے اس کا حرف علت ہونا غورطلب ہے دوسرے یہ حرف بھی بعض دیگر حرف علت کی طرح مفرد نہیں مرکب ہے۔      ( ١٩٩٥ء، نگار، کراچی، اگست، ٥٣۔ )
٥ - حیثیت، اصلیت، درجہ، سطح۔
"ڈرامے کا معیار بعض اوقات بہت بلند اور بعض اوقات بہت پست ہوتا ہے۔"      ( ١٩٩٠ء، اردو ڈرامے کی مختصر تاریخ، ٢٩ )
٦ - خوبی، کمال۔
"میں نے بھی تو اس معیار پر پہنچنے کے لیے ایڑی چوٹی کا پسینہ بہایا ہے۔      ( ١٩٤٠ء، کالی حویلی، ١٥٥ )
  • کَسوٹی
  • پَیمانہ
  • a standard of measure or weight;  the mark or standard of money;  a touchstone