عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے، اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔
جمع غیر ندائی : مَکْتَبوں [مَک + تَبوں (واؤ مجہول)]
١ - درس گاہ، پڑھنے لکھنے کی جگہ، تعلیم گاہ جس میں بچوں کو (ابتدائی) تعلیم دی جائے، اسکول نیز کالج وغیرہ۔
طفل کا طفل رہا مکتب جاں میں پھر بھی دہر میں وقت کو استاد کیا تھا میں نے
( ١٩٨٨ء، آنگن میں سمندر، ٧٣ )
٢ - حلقۂ تدریس۔
"جناب مسیح علیہ الصلوٰہ و السلام کے مکتب درس میں صرف حلم و تحمل، صلح و عفو، قناعت، تواضع کی تعلیم ہوتی تھی"
( ١٩١١ء، سیرۃ النبیۖ، ٢:١ )
٣ - محضوض فکرونظر یا سوچ رکھنے والوں کا حلقہ، ہم خیال، اہل فکر لوگوں کا گروہ۔
"بندوخان کا سارنگی کا اپنا مکتب ہے، کوئی سارنگی نواز ایسا نہیں ہے جس نے بندو خان کا انگ جان بوجھ کر یا بے جانے بوجھے نہ اپنایا ہو"
( ١٩٨٤ء، کیا قافلہ جاتا ہے، ٢٣٧ )
٤ - وہ خوشی کی تقریب جو بچے کو پڑھانے کی ابتدا کرنے یا الف بے شروع کرانے کے موقع پر منائی جاتی ہے، بسم اللّٰہ، تسمیہ خوانی۔
"مجھے اپنی مکتب خوب یاد ہے جو چار برس چار مہینے اور چار دن. دھوم دھام سے بچھراؤں میں منعقد ہوئی"
( ١٩٨٧ء، نگار، کراچی، ستمبر، ١٥ )