مثال

( مِثال )
{ مِثال }
( عربی )

تفصیلات


مثل  مِثال

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم اور حرف استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٠٣ء کو "شرح تمہیدات ہمدانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف تشبیہ
١ - طرح، مثل، مانند، جیسا۔
 نام ہی کیا نشاں ہی کیا خواب و خیال ہو گئے تری مثال دے کے ہم تیری مثال ہو گئے      ( ١٩٩٠ء، شاید ١١٩ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : مِثالیں [مِثا + لیں (ی مجہول)]
جمع استثنائی   : اَمْثال [اَم + ثال]
جمع غیر ندائی   : مِثالوں [مِثا + لوں (و مجہول)]
١ - نظیر، عدیل، تمثیل۔
"خود میری مثال میرے سامنے تھی اور مجھ جیسے نہ معلوم کتنے اور تھے"      ( ١٩٩٢ء، نئی سمت۔ ٢٤ )
٢ - تصویر، عکس، پرتو، صورت تمثال، شبیہ۔
"کسی شے کی مثال کو اس شے کی جگہ لے لینے سے مغالطہ واقع ہوتا ہے"      ( ١٩٢٥ء، حکمۃ الاشراق، ٩٦ )
٣ - کسی چیز کا وہ خاکہ جو ذہن میں ہو، تصوراتی شکل، ہیولا۔
"کوئی ان چیزوں سے خیر مطلق نہیں ہے، نہ کوئی اور چیز سوا تصور کے لیکن مثال یا تصویر بلامقصد ہو گا"      ( ١٩٣١ء، اخلاق نقوماجس (ترجمہ) ١٣ )
٤ - مشابہت، تشہبیہ، شباہت، روپ، مورت۔
"عشق کی مثال ایک ایسے باز کی ہے جس کے سامنے کوئی پنچھی پر نہیں مار سکتا"      ( ١٩٦٨ء، تاویل و تعبیر، ٦١ )
٥ - وہ شے یا بات جو بطور نظیر پیش کی جائے، وہ واقعہ یا امر جس سے کسی اصول کی توضیح ہوتی ہو۔
"ذیل میں مختلف الکنیز کے ہم ترکیب مرکبات کی مثالیں دی گئی ہیں جن سے اس خاصیت کی وضاحت ہوتی ہے"      ( ١٩٨٥ء، نامیاتی کیمیا، (ظہیر احمد)، ١١٢ )
٦ - نمونہ، بانگی۔
 بیکسی کی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی مثال دل کی میت اور دل ہی اپنا ماتم دار تھا      ( ١٩٤٧ء، نوائے دل، ٣٧ )
٧ - حکم نامہ، حکم، پروانہ، فرمان شاہی؛ حکمنامۂ قاضی؛ سند جو پیر کی طرف سے خلفیہ کو دی جاتی ہے، سند خلافت۔ (فرہنگ آصفیہ، نوراللغات)
٨ - اخلاقی حکایت کا وہ قصہ جس میں تمثیل یا استعارے کے پیرائے میں کوئی بات کی جائے، حکایت، کہانی۔
 بولوں تج کوں ایک مثال کیا خش تمثیل ہے خش حال      ( ١٦٤٠ء، کشف الوجود (قدیم اردو) ٣١٦:١ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : مِثالیں [مِثا + لیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : مِثالوں [مِثا + لوں (و مجہول)]
١ - ایک عالم کا نام کہ جو کچھ اس میں موجود ہے، اس کی مثال وہاں ملتی ہے اور اس کو عالم مثال کہتے ہیں، عالم خواب؛ (تصوف) اصطلاح صوفیہ میں عینیت ہے اور شرع میں غیریت اور بمعنے لکھتے ہیں نہ عین اور نہ غیر، بعض نے فرق کیا ہے یعنی مثل میں ایک قسم کی مشابہت ثابت ہے لیکن مثال میں شبہ تمام چاہیے اس واسطے کہ حروف کی کثرت معنی کی کثرت پر دلالت کرتی ہے اور کہا گیا ہے علمی العکس اور عالم مثال بالاتر عالم شہادت سے ہے اور فروتر عالم ارواح سے اور عالم شہادت سایۂ عالم مثال ہے اور عالم مثال سایۂ ارواح ہے اور جو کچھ اس عالم میں ہے وہ سب عالم مثال میں ہے اور اسے عالم نفوس بھی کہتے ہیں اور خواب میں جو چیز دیکھی جاتی ہے اسے صورِ عالم مثال کہتے ہیں۔ (ماخوذ: مصباح التعرف، فرہنگ آصفیہ)
٢ - "افلاطون نے ایک عالم تصورات یا عالم مثال کو قدیم اور واجب الوجود تسلیم کر رکھا تھا جو عالم امسام سے باہر ہے اور جہاں ہر شے کا ایک ازلی تصور یا نمونہ موجود ہے"
١٩٨ء، مجنوں گورکھپوری، فن اور جمالیات، (ترقی پسند ادب) ١٧٩