بھیا

( بَھیّا )
{ بَھیْ + یا }
( سنسکرت )

تفصیلات


بھراترک  بھائی  بَھیّا

سنسکرت سے ماخوذ اردو اسم 'بھائی' کی ایک محرفہ شکل ہے، اردو میں بطور اسم ہی مستعمل ہے۔ ١٧٠٠ء میں "من لگن" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : بَھیّے [بَھیْ + یے]
جمع   : بَھیّے [بَھیْ + یے]
جمع غیر ندائی   : بَھیّوں [بَھیْ + یوں (و مجہول)]
١ - بھائی (پیار کے لیے)
 نہ لی بھیا نے بھی سدھ بدھ ہماری جہاں سے چاہ اٹھتی جا رہی ہے      ( ١٩٤١ء، صبح بہار، ٥١ )
٢ - پیار سے بلانے کا کلمہ، چھوٹے بچے کو پیار سے کہتے ہیں۔
"ہائے پورن. میرا بھیا. اوئی اس کی آنتیں لوٹ جائیں گی. ہائے میرا بچہ"      ( ١٩٤٣ء، ضدی، ٥٤ )
٣ - کسی کے کم عمر لڑکے کے لیے بولتے ہیں۔
"ہماری بڑی سالی کے بھیا کی مونچھوں کا کونڈا ہے"      ( ١٨٨٩ء، سیرکہسار، ٩٥:١ )
٤ - خلوص و محبت کے ساتھ کسی کو خطاب کرنے کے لیے محل پر بولتے ہیں۔
"حضرت بابا فرید اپنے ایک دوست کو بھیا کہا کرتے تھے"      ( ١٩٢٥ء، تاریخ زبان اردو، ٢٢ )
٥ - کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے زائد بولتے ہیں۔
"کسی کی بیجا بات تو بھیا مجھ سے کبھی بھی برداشت نہ ہو گی، چاہے تم ہو چاہے بڑے بھائی"      ( ١٩٤٠ء، مہذب اللغات، ٤١٧:٢ )
  • brother;  comrade