غضب

( غَضَب )
{ غَضَب }
( عربی )

تفصیلات


غضب  غَضَب

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق کلمہ ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم، بطور صفت، بطور حرف نیز بطور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٤٢١ء کو "بندہ نواز کے معراج العاشسقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف فجائیہ
١ - حیرت و استعجاب ظاہر کرنے کے لیے۔
"اوہ غضب اتنی چھوٹی اور اتنی طَرّار"      ( ١٩٠٧ء، سفید خون، ١٧۔ )
٢ - اظہار تاسّف کے لیے، بجائے ہائے ہائے۔
 یاد آ گیا پھر اک بُتِ رعنا غضب غضب رنگیں خرام کیف سراپا غضب غضب      ( ١٩٤٢ء، نوبہاراں، ٤٨۔ )
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - غصہ، خفگی، غیظ۔
"وہ غضب اور رضا دونوں حالتوں میں کلام فرماتے ہیں"      ( ١٩٧٦ء، ملاقاتِ کاظمی، ٢١٧۔ )
٢ - قہر، عذاب۔
"اب خداوندِ ذوالجلال کے رحم و کرم نے دوسری شان اختیار کی یعنی اس کے قہروغضب نے ان غیرصلاحیت پذیر ہستیوں سے سطح ارضی کو پاک کر دینے کا تہیہ کر لیا"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٧:٣۔ )
٣ - ظلم، زیادتی، اندھیر، زبردستی، سختی۔
 بولا یہ غضب تو بولی خاموش بولا کہ پھر اب تو کھولی آغوش      ( ١٨٨٧ء، ترانۂ شوق۔ ٣١۔ )
٤ - شدید طور پر متاثر کرنے والے، ستم، آصف، قیامت۔
 ہنسا غضب وہ نازو ادا سے شبِ وصال منہ کر ستم وہ شرارت سے دیکھنا      ( ١٨٨٤ء، مضامین رفیع، ١٠:٥۔ )
٥ - مشکل صورتِ حال، بلا، مصیبت، تباہی۔
 دل کو پیدا کر کے فطرت خود غضب میں پڑ گئی محو ہے اِخفاءِ رازِ دہر کی تدبیر میں      ( ١٩٤٠ء، کلیات بیخود موہانی، ٤١۔ )
٦ - بہت بری بات، بہت بے جا بات، بے سروپا بات، بے بنیاد بات۔
 کہتے ہیں یہ بے جاں ہوں گوارا مجھے کب ہے ان میں جو کوئی مرنے کو نکلا تو غضب ہے      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٨٥:٥۔ )
صفت ذاتی
١ - عجیب، نادر، انوکھا۔
 مٹے گا نہ دل سے کبھی جیتے جی غضب داغ دل پر لگا کر چلے      ( ١٩١١ء، دیوان ظہیر دہلوی، ١٤٥:٢ )
٢ - خوبی میں یکتا، کمال حسین، بہت زیادہ خوبصورت، بے مثل۔
 پریوں پہ تری طرح سے مرتے نہیں ہمدم ہم جس پہ ہیں عاشق وہ وہ پری زاد غضب ہے      ( ١٨٥٤ء، دیوانِ ذوق، ١٩٤۔ )
٣ - پُراثر، پُردرد، پرسوز۔
 اک ہوک اٹھی غضب جگر سے یوں روئی کہ جیسے ابر برسے      ( ١٨٨٢ء، مادرہند، ٤٢۔ )
٤ - ناراض، برافروختہ، برہم۔
 اللہ کرے خیر مرے شیشۂ دل کی پھر آج وہ مستِ مئے بیداد غضب ہے      ( ١٩٥٤ء، دیوانِ ذوق، ١٩٣۔ )
٥ - مضر، ضرر رساں، خطرناک۔
"لارنس کا سوچنا غضب ہے، ایک نہ ایک بات ہو کے رہی"      ( ١٩٣٥ء، معاشرت، ٥٤۔ )
٦ - شرانگیز، بدطینت، فریبی، دغاباز۔
 شیطاں بھی اماں مانگتا ہے ان کے عمل سے کیا حضرت آدم کی بھی اولاد غضب ہے      ( ١٨٥٤ء، دیوانِ ذوق، ١٩٤۔ )
٧ - حیرت انگیز، تعجب خیز، بلا کا۔
 اللہ کی پناہ غضب رن پڑا ہے آج کشتے پڑے ہیں کوچۂ قاتل میں پاس پاس      ( ١٨٧٠ء، دیوانف یاس، ٨٦۔ )
٨ - بڑا مشکل، نہایت دشوار، بہت ناگوار۔
 اور موت پہ اختیار کب ہے جیتا رہنا ہے پر غضب ہے      ( ١٨٠٩ء، کلیاتِ جرات، ٢٦٧۔ )
٩ - بہت زیادہ، حد سے سوا۔
 تاکمر پہنچے جو بڑھ کر گیسُوئے لیلائے شب حسن میں تیری بڑھی شانِ دل افروز غضب      ( ١٩١٢ء، مطلعِ انوار، ٦٢۔ )
١٠ - بڑھ چڑھ کر
 کیا غمزہ ترا برسرِ بیداد غضب ہے جلادِ فلک سے بھی یہ جلاد غضب ہے      ( ١٨٥٤ء، دیوانِ ذوق، ١٩٣۔ )