اسم  حاصل مصدر (  مذکر - واحد  ) 
              
                
                  
                    ١ - گنتی، شمار، میزان، جوڑ۔
                  
                  
                      
                      
                        "میں شام کو تین چار گھنٹے دفتر میں لگاتا . کچے حساب کی فردیں اپنے حساب سے کیش بک اور کھاتے میں منتقل کرتا"۔
                        
                      
                   
                 
                
                  
                    ٢ - علم ریاضی کی ایک شاخ، علم الحساب، ارتھمیٹک، انگریزی میں Arithmetic
                  
                  
                      
                      
                        "حساب کے پروفیسر چارلس بے بیج نے ١٨٢ء میں ایک ایسی مشین بنائی جو ٦ درجے اعشاریہ تک کام کرتی تھی"۔     
                        ( ١٩٨٤ء، ماڈل کمپیوٹر بنائیے، ١١ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٣ - نرخ، بھاؤ، قیمت۔
                  
                  
                      
                      
                        "منشی . دو روپے فی گائے کے حساب سے گوجروں سے چرائی کی اجرت لے رہا تھا"۔     
                        ( ١٩٨١ء، سفر در سفر، ٢٨ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٤ - انداز، سمجھ، رائے، خیال۔
                  
                  
                      
                      
                        "جمع حدیث پر اختلاف ہوا فقہ کی تدوین ایک دوسرے سے مختلف ہو گئ۔ تاریخ کو اپنے اپنے حساب سے مرتب کیا"۔     
                        ( ١٩٧٣ء، فرقے اور مسالک، ١٠٧ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٥ - مقدار، تناسب، نسبت
                  
                  
                      
                      
                        "قیمے میں کچھ اس حساب سے مسالے ملاتے تھے کہ جوبات ان کے کبابوں میں ہوتی تھی سارے دلی کے کبابیوں کے یہاں نہیں ہوتی تھی"۔     
                        ( ١٩٦٢ء، ساقی، جولائی، ٤٩ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٦ - محاسبہ، پوچھ گچھ، احتساب، جزا و سزا کا تعین۔
                  
                  
                      
                      
                        "اللہ جلدی حساب کرنے والا ہے"۔     
                        ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٧٧:١ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٧ - فردِ عمل۔
                  
                  
                      
                      
                         جو چاہیں لکھ لیں کاتب اعمال چار دن دیکھوں گا روز حشر میں کاغذ حساب کا     
                        ( ١٨٤٦ء، کلیات، آتش،١، ١٥٣ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٨ - لین دین، کھاتہ۔
                  
                  
                      
                      
                        "قرض ملتا نہیں، بنک میں حساب نہیں"۔     
                        ( ١٩٢٤ء، خونی راز، ٨٣ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٩ - طور، طریقہ، قاعدہ، ڈھنگ
                  
                  
                      
                      
                         یا جوش کو یا خواجہ کو خط لکھتا ہوں دہلی گو آپ کو معلوم ہے، ہے ان کا حساب اور     
                        ( ١٩٣٨ء، کلیات عریاں، ٧٤:٢ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ١٠ - معاملہ، تعلق، سلسلہ، ربط، لگاؤ، لگاوٹ۔
                  
                  
                      
                      
                         نہ سمجھا کبھی پائے اپنا حساب کہ ہم موج ہیں، بحر ہیں یا حباب     
                        ( ١٩١١ء، کلیات اسمائیل، ١١ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ١١ - حالت، کیفیت
                  
                  
                      
                      
                         آیا جو موسمِ گل تو یہ حساب ہو گا ہم ہوں گے یار ہو گا جام شراب ہو گا     
                        ( ١٨٥٤ء، غنچہ آرزو، ٥ )