آتش

( آتَش )
{ آ + تَش }
( فارسی )

تفصیلات


یہ اصلاً فارسی کا لفظ ہے اور اردو میں اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٤٩ء میں "خاورنامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - آگ (حقیقی اور مجازی معنی میں)
 نہیں ہے سرکشوں کو امن جوش بحر رحمت میں جو آب زندگی برسا حق آتش سم ٹھہرا     "اگر تم ایسا نہ کرتے تو آتشِ دوزخ تم کو چھو لیتی۔"      ( ١٨٧٠ء، دیوان اسیر، ٦٨:٣ )( ١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ٣٨٣:٢ )
٢ - [ کیمیا گری ]  سرخ گندھک
١ - آتَشْ دینا
جلانا، سلگانا۔ آتش تو دی تھی خانہ دل کے تئیں میں آپ پر کیا خبر تھی یہ کہ بجھایا نہ جائے گا      ( ١٧٩٥ء، قائم، دیوان (ق)، ٨ )
٢ - آتَش کا جلا پانی کو دوڑے
مداوے کی بہترین صورت کی تلاش ہوتی ہے؛ دل ہے پر داغ تو کس طرح نہ روءوں سچ ہے دوڑے ہے پانی کو کہتے ہیں جلا آتش کا      ( ١٨٤٠ء، نصیر، چمنستان سخن، ١٧ )
  • Fire
  • flame;  anger
  • passion
  • rage