بزم

( بَزْم )
{ بَزْم }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے۔ ١٦١١ء میں قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : بَزْمیں [بَز + میں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : بَزْموں [بَز + موں (واؤ مجہول)]
١ - محفل، مجلس (خواہ عیش و طرب کی ہو یا رنج و غم کی)، دربار، کسی تقریب میں بہت سے آدمیوں کا اجتماع۔
 بیٹھے ہیں کہاں اہل مسند آغاز وہ نیک انجام یہ بد یا بزم طرب یا کنج لحد یا وہ مجمع یا کوئی نہیں      ( ١٩٥١ء، آرزو، ساز حیات، ٢٤ )
٢ - وہ شاعری جو رزمیہ نہ ہو، طربیہ شاعری، رزم کی ضد۔
 لایا ہوں بزم و رزم کی ارض تضاد سے یہ طبل جنگ و ساز شبستاں ترے لیے      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٣ )
٣ - فرش جو کسی جلسے کے انعقاد میں بچھایا جائے۔
 جو فرصت باپ کے چہلم سے پائی بچھی تھی بزم ماتم جو اٹھائی      ( ١٨٦٨ء، الف لیلہ منظوم، نسیم دہلوی، ٦٦٦:٣ )
  • assembly
  • company
  • party
  • entertainment
  • feast
  • banquet