سماج

( سَماج )
{ سَماج }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٥٢ء کو "قصہ کامروپ وکلا کام" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع غیر ندائی   : سَماجوں [سَما + جوں (و مجہول)]
١ - انجمن، سبھا۔
"برہمو سماج" میں مدارس کی "وید سماج" اور اسی طرح کی دوسری انجمنیں اس مقصد کو پیش نظر رکھ کر قائم ہوئی ہیں۔"      ( ١٩٣٥ء، خطبات گارساں دتاسی (ترجمہ)، ٤٨٨ )
٢ - گروہ، جماعت، معاشرہ، سوسائٹی۔
"لطیف اثر کا سماج پر گہرا مطالعہ معلوم ہوتا ہے۔"      ( ١٩٨٣ء، حصارانا (پیش لفظ)، ١٠ )
٣ - ساز و سامان۔
 ساج سماج سوں راج کرو گجراج اور باج سجائے ہزارک عید نوید مفید تمھے، شاہ عالم، ہو بکر ید مبارک      ( ١٧٩٧ء، نادرات شاہی، ٩٠ )
٤ - محفل عیش و عشرت، بزم طرب۔
 رہے نصف شب تک سماج ایک قائم رکھیں یہ طریقہ و تیرہ وہ دائم      ( ١٩٠٩ء، مظہر المعرفت، ٤٥ )
٥ - دیوتاؤں کی اعزاز میں منایا جانے والا ایک قدیم تیوہار۔ (ماخوذ: ہمارا قدیم سماج، 191)
  • meeting
  • assembly
  • congregation
  • club