پرانا

( پُرانا )
{ پُرا + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


پُران+کَ  پُرانا

سنسکرت میں 'پُران + کَ' سے ماخوذ 'پُرانا' اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : پُرانی [پُرا + نی]
واحد غیر ندائی   : پُرانے [پُرا + نے]
جمع   : پُرانے [پُرا + نے]
جمع غیر ندائی   : پُرانوں [پُرا + نوں (و مجہول)]
١ - نیا کا نقیض، قدیم، دیرنیہ، اگلے وقتوں کا۔
"فین چوفو بہت پرانا شہر اور معقول تجارت گاہ ہے۔"      ( ١٨٤٨ء، تاریخ ممالک چین، ٥٦ )
٢ - اگلے فیشن، وضع یا تہذیب کا (نور الغات، 72:2)
٣ - سابق کا، ماضی کا۔
"ڈاکٹر صاحب نے کلکتے والی نوکری کو توخیر باد کہا اور پھر وہی اپنے پرانے ڈھرے پر لگ گئے۔"      ( ١٩٢١ء، فغان اشرف، ١٧ )
٤ - استعمال شدہ، بوسیدہ، فرسودہ۔
 دن بہت گزرے بدلنا چاہیئے جامہ ہستی پرانا ہو گیا      ( ١٩٠٠ء، دیوان حبیب، ٢٠ )
٥ - سن رسیدہ، زیادہ عمر کا، بوڑھا۔
"جس لال پر سرخی پر سیاہی نمود، ہو وہ لال پرانا ہے۔"      ( ١٨٨٣ء، صیدگاہ شوکتی، ٢٥٨ )
٦ - تجربہ کار، جہاں دیدہ، کار آمودہ۔
 زاہد صدسالہ آیا میکدے میں بھول کر لاشراب کہنہ ساقی اس پرانے کے لئے      ( ١٩٠٥ء، داغ، انتخاب داغ، ١٦٦ )
٧ - عادی، جسے کسی بات کی عادت پڑ گئی ہو۔
"پھر بھی وہ پرانے گناہ گار ہیں۔"      ( ١٩٠٧ء، کرزن نامہ، ١٧٤ )